6. باب: راہن اور مرتہن میں اگر کسی بات پر اختلاف ہو جائے یا ان کی طرح دوسرے لوگوں میں تو گواہی پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے، ورنہ (منکر) مدعیٰ علیہ سے قسم لی جائے گی۔
(6) Chapter. If a dispute arises between the mortgagor and mortgagee, a proof is to be provided by plaintiff, otherwise the defendant has to take an oath (if he insists on denying the plaintiff’s claim).
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں (دو عورتوں کے مقدمہ میں) لکھا تو اس کے جواب میں انہوں نے تحریر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا کہ (اگر مدعی گواہ نہ پیش کر سکے) تو مدعیٰ علیہ سے قسم لی جائے گی۔
Narrated Ibn Abu Mulaika: I wrote a letter to Ibn `Abbas and he wrote to me that the Prophet had given the verdict that the defendant had to take an oath.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 45, Number 691
اليمين على المدعى عليه لو أن الناس أعطوا بدعواهم لادعى ناس أموال ناس ودماءهم فادعها واتل عليها هذه الآية إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2514
حدیث حاشیہ: یہ اختلاف خواہ اصل رہن میں ہو یا مقدار شی مرہونہ میں میں مثلاً مرتہن کہے تونے زمین درختوں سمیت گروی رکھی تھی اور راہن کہے میں نے صرف زمین گروی رکھی تھی تو مرتہن ایک زیادہ کامدعی ہوا، اس کو گواہ لانا چاہئے۔ اگر گواہ نہ لائے تو راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ شافعیہ کہتے ہیں رہن میں جب گواہ نہ ہوں تو ہر صورت میں راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2514
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2514
حدیث حاشیہ: راہن، گروی رکھنے والا اور مرتہن جس کے پاس گروی رکھی جائے۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ مدعی اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کرے یا گواہ لائے، اگر مدعی کے پاس ثبوت یا گواہ نہ ہوں تو مدعا علیہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے معاملے میں جو اصول ہے وہی اصول راہن اور مرتہن کے بارے ہو گا۔ ان کے اختلاف کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں قرض کی مقدار میں اختلاف کریں اور مرہونہ چیز بھی موجود ہو، راہن کہے کہ میں نے ایک سو کے عوض گروی رکھی ہے اور مرتہن کہے کہ میں نے اس سے دو سو روپیہ لینے ہیں اور یہ گروی دو سو روپے کے عوض ہے، تو اس اختلاف کو نمٹانے کے لیے درج بالا طریقہ استعمال کیا جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2514
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5427
´قسم کھلاتے وقت حاکم کی نصیحت کا بیان۔` ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ دو لڑکیاں طائف میں موزے (خف) بنایا کرتی تھیں، ان میں سے ایک باہر نکلی، تو اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا، اس نے بتایا کہ اس کی سہیلی نے اسے زخمی کیا ہے، لیکن دوسری نے انکار کیا، تو میں نے اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا تو انہوں نے جواب لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ قسم تو مدعا علیہ سے لی جائے گی، اگر لوگوں کو ان کے دعوے کے مطابق (فیصلہ) مل جایا کرے تو بعض لوگ دوسرے لوگوں کے مال اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5427]
اردو حاشہ: یہ قطعی بات ہے کہ مدعی سے اس کے دعوے کا ثبوت طلب کیا جائے گا۔ اگر ثبوت‘ یعنی کوئی دستاویز یا گواہ مل جائے تو وہ چیز مدعی کو دے دی جائے گی۔ اگر مدعی دلیل پیش نہ سکے تو پھر مدعی علیہ سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ (مدعی علیہ) مدعی کے دعوے کا منکر ہو تو اس سے قسم لی جائے گی۔ قسم کھا لے تو مدعی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اگر قسم نہ کھائے تو پھر مدعی سے قسم لے کر چیز اسے دے دی جائے گی اسے یمین نکول کہتے ہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5427
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4471
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھانے کا فیصلہ، مدعی علیہ کے بارے میں کیا ہے (قسم مدعی علیہ اٹھائے)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4471]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قسم اٹھانا، مدعی علیہ کے ذمہ ہے، اگر وہ قسم اٹھاوے گا تو بری الذمہ ہو جائے گا اور اگر قسم نہیں اٹھائے گا تو مدعی کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا اور مدعی علیہ کے قسم سے انکار پر مدعی کو قسم اٹھانے کے لیے نہیں کہا جائے گا، امام ابو حنیفہ اور امام احمد کا موقف یہی ہے، لیکن امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک مدعی علیہ کے قسم سے انکار پر اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا جائے گا، امام مالک کے نزدیک مالی معاملات میں مدعی کو قسم اٹھانے کے لیے کہا جائے گا، اگر قسم اٹھا لے گا تو اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا اور امام شافعی کے نزدیک ہر قسم کے دعویٰ میں مدعی کو قسم اٹھانے کے لیے کہا جائے گا، قسم کے بغیر اس کے حق میں فیصلہ نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ خیال رہے، حدود کے مسئلہ میں قسم نہیں ہے، باقی دعادی کے بارے میں، قسم کے بارے میں اختلاف ہے، کیونکہ حقوق دو قسم کے ہیں(1) حقوق اللہ (2) حقوق العباد۔ حقوق العباد میں جو مالی معاملات ہیں یا ان میں مقصود مال ہی ہے، اس میں بالاتفاق قسم ہے اور جو مالی معاملات نہیں ہیں یا مال سے ان کا تعلق نہیں یعنی مال مقصود نہیں ہے، جیسے قصاص، نکاح، رجوع، ایلاء وغیرھا، امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان میں قسم نہیں ہے، امام احمد کا ایک قول یہی ہے اور امام شافعی اور صاحبین کے نزدیک یہاں بھی قسم ہے، لیکن متاخرین احناف نے فتویٰ صاحبین کے مطابق دیا ہے کہ حدود کے سوا ہر دعویٰ میں مدعی علیہ سے قسم لی جا سکتی ہے۔