لیث نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے بشیر بن یسار سے اور انہوں نے حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید (مدینہ سے) نکلے یہاں تک کہ جب خیبر میں پہنچے تو وہاں کسی جگہ الگ الگ ہو گئے، پھر (یہ ہوتا ہے کہ) اچانک محیصہ، عبداللہ بن سہل کو مقتول پاتے ہیں۔ انہوں نے اسے دفن کیا، پھر وہ خود، حویصہ بن مسعود اور (مقتول کا حقیقی بھائی) عبدالرحمان بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ (عبدالرحمان) سب سے کم عمر تھا، چنانچہ عبدالرحمان اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے بات کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "بڑے کو اس کا مقام دو، " یعنی عمر میں بڑے کو، تو وہ خاموش ہو گیا، اس کے دونوں ساتھیوں نے بات کی اور ان کے ساتھ اس نے بھی بات کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن سہل کے قتل کی بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی (کے بدلے خون بہا)۔۔ یا (فرمایا:) بدلے میں اپنے قاتل (سے دیت یا قصاص لینے)۔۔ کے حقدار بنو گے؟" انہوں نے جواب دیا: ہم قسمیں کیسے کھائیں جبکہ ہم نے دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا: "تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تمہیں (ان کے خلاف تمہارے مطالبے کے حق سے) الگ کر دیں گے انہوں نے کہا: ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیونکر قبول کریں؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی آپ نے (اپنی طرف سے) اس کی دیت ادا کی
حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سھل ابن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید مدینہ سے نکلے اور خیبر پر پہنچ کر الگ الگ ہو گئے، پھر بعد میں محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول حالت میں پایا، اور اسے دفن کر دیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ تعالی عنہما کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور (مقتول کا بھائی عبدالرحمٰن) تینوں میں سے چھوٹا تھا۔ تو عبدالرحمٰن نے اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے کلام کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”بڑے کو موقعہ دو۔“ یعنی عمر میں جو بڑا ہے، تو وہ خاموش ہو گیا، اور اس کے ساتھیوں نے گفتگو کی اور اس نے بھی گفتگو میں حصہ لیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عبداللہ بن سہل کے مقتل (قتل گاہ) کا ذکر کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں اٹھاتے ہوئے اپنے ساتھی کے قتل کو ثابت کرتے ہوئے قصاص یا دیت کے حقدار بنتے ہو؟“ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے قاتل کا تعین کرتے ہوئے۔“ انہوں نے کہا، ہم کیسے قسمیں اٹھا سکتے ہیں، جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو یہود پچاس قسمیں اٹھا کر تمہارے سامنے اپنی براءت کر سکتے ہیں؟“ انہوں نے کہا، ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی، تو آپ نے اس کی دیت ادا کر دی۔