الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4293
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نذرت في الجاهلية:
امام کرمانی کے نزدیک،
اس سے مراد جاہلیت کا دور یعنی بعثت نبوی سے پہلے کا زمانہ مراد ہے،
اور جمہور شارحین کے نزدیک،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور کفر و شرک مراد ہے،
کہ جبکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے،
اوف بنذرك:
اپنی نذر پوری کرو،
آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کفر کی حالت میں مانی گئی نذر کے پورا کرنے کا حکم دیا،
ائمہ میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے،
حالت کفر میں مانی ہوئی مانی ہوئی نذر کا پورا کرنا فرض ہے یا مستحب،
طاؤس،
قتادہ،
حسن بصری،
امام شافعی،
امام احمد،
ابو ثور،
اسحاق،
ابن حزم،
ابن جریر طبری،
اور بعض مالکیہ کے نزدیک،
اسلام لانے کے بعد،
حالت کفر کی جائز نذر پورا کرنا فرض ہے۔
اکثر علماء کے نزدیک کافر کی نذر درست نہیں ہے،
کیونکہ اس کا مقصد اللہ کی رضا جوئی اور خوشنودی نہیں ہے،
حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے،
کافر و مشرک بھی اللہ کا تقرب اور رضا چاہتے ہیں،
بلکہ وہ تو بتوں کی عبادت بھی بزعم خویش اللہ کے تقرب کے حصول کے لیے کرتے تھے:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ (سورة الزمر:
آيت 3)
امام مالک،
ابو حنیفہ،
ابراہیم نخعی،
ثوری اور بعض شوافع کے نزدیک کافر پر اسلام لانے کے بعد اپنی نذر پوری کرنا لازم نہیں ہے،
ہاں مستحب اور پسندیدہ ہے،
امام شافعی اور امام احمد کا ایک قول یہی ہے۔
(فتح الباری،
ج 11،
ص 709)
اعتكاف ليلة یا اعتكاف يوم:
شوافع نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے،
جس میں رات کے اعتکاف کا تذکرہ ہے،
یہ استدلال کیا ہے کہ اعتکاف صرف رات کا بھی ہو سکتا ہے،
اس لیے اس کے لیے روزہ شرط نہیں ہے،
کیونکہ روزہ دن کے وقت ہوتا ہے،
اور دوسری حدیث میں دن کے اعتکاف کا تذکرہ ہے،
اس سے احناف نے یہ استدلال کیا ہے،
کہ رات میں دن شامل ہے اور دن میں رات داخل ہے،
اس لیے اس سے مراد،
صرف رات یا صرف دن نہیں ہے،
دن رات دونوں ہی مراد ہیں،
اس لیے اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4293