حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 581
´شکار، جانوروں اور کھیتی باڑی کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا جائز ہے`
«. . . 256- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من اقتنى كلبا ليس بكلب صيد ولا كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی شکاری اور جانوروں کی حفاظت والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پالے تو اس کے اجر و ثواب (نیکیوں) میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوتی ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 581]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5482، ومسلم 50/1574، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ احادیث ِ صحیحہ سے صرف تین قسم کے کتے پالنے اور رکھنے کا ثبوت ملتا ہے: شکار کے لئے، جانوروں کی حفاظت کے لئے اور کھیتی باڑی (زمین) کی حفاظت کے لئے تیسرے کتے کی دلیل کے لئے دیکھئے [صحيح بخاري 2322، صحيح مسلم 1576] اور یہی کتاب [ح 518] ان تین اقسام اور جاسوسی و تفتیش والے کتوں کے علاوہ ہر قسم کے کتے پالنا اور رکھنا حرام ہیں۔
➋ مصالح مرسلہ اور انسانوں کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ ایسے کتے پالنا جو چور یا گمشدہ چیز کی کھوج لگائیں، شکاری کتے کے حکم میں ہونے کی وجہ سے جائز ہیں۔
➌ ایسے اعمال سے بچنا ضروری ہے جن سے اخروی نقصان کا خدشہ ہو۔ ➍ مصلحت راجحہ کو اس کام پر ترجیح حاصل ہے جس میں نقصان زیادہ ہو۔
➎ ثقہ راوی کی زیادت مقبول ہوتی ہے۔ ➏ قیراط وزن اور پیمائش کی ایک مقدار کو کہتے ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 256