سفیان اور شعبہ دونوں نے عبداللہ بن دینار سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی، لیکن ان دونوں کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں: وہ جب سودا کرتا تو کہتا تھا: دھوکا نہیں ہو گا
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ سودا کرتے وقت لا خلابة
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3861
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: لا خلابة: خديعه: اور دھوکا نہیں ہونا چاہیے، مقصد یہ ہے کہ اس سودا میں، دھوکا نہیں ہونا چاہیے وگرنہ وہ اس کا پابند نہیں ہو گا، کیونکہ دین خیرخواہی کا نام ہے، وہ دھوکے کی اجازت نہیں دیتا۔ فوائد ومسائل: حضرت حبان بن منقذ یا منقذ بن عمرو رضی اللہ عنہ کچھ کم عقل تھے اور زبان بھی صاف نہیں تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ الفاظ، لا خلابة بتا دئیے تاکہ دوسرا فریق ان کی خیرخواہی اور ہمدردی ملحوظ رکھتے ہوئے، ان سے سودا کرے، لیکن وہ زبان کی لکنت کی وجہ سے خلابۃ یا خدیعہ کا لفظ بولنے کی بجائے کبھی خیابۃ کہہ دیتے کبھی، خذابۃ یا خیانۃ، مقصود خلابۃ ہوتا، اس حدیث کی بناء پر، ایک ایسا جو ناتجربہ کار یا خرید و فروخت میں اناڑی ہے، بھاؤ تاؤ نہیں کرتا، بائع جو مانگے دے دیتا ہے، اگر بائع اس کو بہت مہنگی چیز دے، تو کیا اس کو سودا فسخ کرنے کا حق حاصل ہو گا یا نہیں؟ ائمہ کا اختلاف ہے، حنابلہ اور بعض مالکیہ کے نزدیک اگر ناتجربہ کار کو چیز عام معمول سے زیادہ مہنگے داموں بیچی ہے تو اسے خیار فسخ حاصل ہو گا، مثلا ایک چیز عام طور ہر دس روپے کی ہے وہ اسے پندرہ میں دیتا ہے، تو اسے سودا فسخ کرنے کا حق حاصل ہو گا، لیکن شوافع، احناف اور اکثر مالکیہ کے نزدیک تجربہ کار، عقل مند کی طرح نا تجربہ کار اور کم عقل کو بھی سودا مہنگا ہونے کی بنا پر، فسخ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور یہ حدیث یا تو حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے یا اس کا تعلق خیار شرط کے ساتھ ہے، خیار شرط کی صورت میں، اس کو سودا فسخ کرنے کا حق حاصل ہوا، اور خیار شرط کی وضاحت بیع الخیار کے تحت گزر چکی ہے، لیکن بقول علامہ سعید، متاخرین احناف نے اس صورت میں فسخ کا اختیار دیا ہے۔ علامہ تقی عثمانی نے بھی یہی بات لکھی ہے (تکملہ، ج 4 ص 180) صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے، اس کو اقالہ کے تحت اخلاقی طور پر واپس کرنے کا حق ہونا چاہیے۔