حضرت ابن عبا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ” تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اس کو ظاہر کر دیا چھپاؤ، اللہ اس پر تمہارا مؤاخذہ کرے گا۔“ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: اس سے صحابہ کے دلوں میں ایک چیز (شدید خوف کی کیفیت کہ احکام الہٰی کے اس تقاضے پر عمل نہ ہو سکے گا) در آئی جو کسی اور بات سے نہیں آئی تھی۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کہو: ہم نے سنا او رہم نے اطاعت کی او رہم نے تسلیم کیا۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس پر اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اسی کے لیے ہے جو اس نے کمایا اور اسی پر (وبال) پڑتا ہے (اسی پر برائی کا) جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہماری مؤاخذہ نہ کرنا۔“ اللہ نے فرمایا: میں نے ایسا کر دیا۔ ” اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے۔“ فرمایا: میں ایسا کر دیا۔ ”ہمیں بخش دے او رہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا مولیٰ ہے۔“ اللہ نے فرمایا: میں نے ایسا کر دیا۔
حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت ﴿وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ﴾ (البقرة:285) ”تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے، اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ اس پر تمھارا مؤاخذہ کرے گا۔“ اتری۔ اس سے صحابہ ؓ کے دل میں اس قدر خوف پیدا ہوا جو کسی شے سے پیدا نہیں ہوا تھا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوں کہو! ہم نے سنا ہم نے اطاعت کی اور ہم نے مان لیا۔“ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یقین ڈال دیا، اس پر یہ آیت اتری: ”اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلّف نہیں ٹھہراتا۔ ہر شخص کو (ان کی نیکیوں پر ثواب ملے گا) جو اس نے کی ہیں۔ (اور ان اعمال کا اس پر وبال ہوگا) جو اس نے کیے ہیں۔ اے ہمارے آقا! اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا (اللہ نے فرمایا: میں نے ایسا کردیا) اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو نے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے (فرمایا: میں نے ایسا کر دیا) ہم سے در گزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا مدد گار اورکارسازہے (اللہ نے فرمایا، میں نے ایسا کردیا)۔“