وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، جميعا، عن ابي معاوية ، قال زهير: حدثنا محمد بن خازم، حدثنا عاصم ، عن حفصة ، عن ام عطية ، قالت: لما نزلت هذه الآية يبايعنك على ان لا يشركن بالله شيئا سورة الممتحنة آية 12، ولا يعصينك في معروف سورة الممتحنة آية 12، قالت: كان منه النياحة، قالت: فقلت يا رسول الله إلا آل فلان، فإنهم كانوا اسعدوني في الجاهلية، فلا بد لي من ان اسعدهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا آل فلان ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا سورة الممتحنة آية 12، وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ سورة الممتحنة آية 12، قَالَتْ: كَانَ مِنْهُ النِّيَاحَةُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا آلَ فُلَانٍ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا أَسْعَدُونِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَا بُدَّ لِي مِنْ أَنْ أُسْعِدَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا آلَ فُلَانٍ ".
عاصم نے حفصہ سے اور انھوں نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہو ئی: "عورتیں آپ سے بیعت کریں کہ وہ اللہ تعا لیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔۔۔اور کسی نیک کا م میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی۔" کہا: اس (عہد) میں سے ایک نو حہ گری (کی شق) بھی تھی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!!فلا ں خاندان کے سوا کیونکہ انھوں نے جا ہلیت کے دور میں (نوھہ کرنے پر) میرے ساتھ تعاون کیا تھا تو اب میرے لیے بھی لا زمی ہے کہ میں (ایک بار) ان کے ساتھ تعاون کروں۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فلاں کے خاندان کے سوا۔"
حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے: کہ جب سورۃ ممتحنہ کی یہ آیت اتری: ”عورتیں آپ سے اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ تعا لیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔۔۔اور آخر میں ہے کہ کسی نیک کا م میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی۔“(آیت:12) وہ بتاتی ہیں (باز رہنے والی چیزرں میں) نوحہ بھی داخل تھا۔ تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلا ں خاندان کے سوا، کیونکہ انھوں نے جا ہلیت کے دور میں نوحہ کرنے میں میرے ساتھ تعاون کیا تھا تو میرے لیے ان تعاون بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں شخص کا خاندان مستثنیٰ ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2165
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض کام ناجائز ہوتے ہیں لیکن اللہ کا رسول چونکہ اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ کی منشا اور مرضی کے مطابق، بعض لوگوں کو وقتی طور پر اس کام کرنے کی اجازت دے دیتا ہے اور اس وقتی اجازت کے بعد وہ انسان بھی دوسروں کے ساتھ اس حکم میں شریک ہوتا ہے لیکن اس وقتی اجازت کا یہ معنی نہیں ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مستقل طور پر یہ اختیار دے دیا ہے کہ آپ عمومی احکام میں سے جس فرد کو چاہیں خاص کر لیں، بلکہ یہ کام آپ: ﴿لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ﴾(النساء: 105) تاکہ آپ لوگوں میں اس کے مطابق فیصلہ کریں جو بات اللہ تعالیٰ نے آپ کو سجھائی ہے اصول کےمطابق کرتے ہیں اس لیے اگر آپﷺ کا کوئی فیصلہ یا حکم اللہ تعالیٰ کی منشاء مرضی کے مطابق نہ ہوتا تو فوراً آپ کو آگاہ کر دیا جاتا تھا۔ اور اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فرستادہ اور نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم متصور ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾(النساء: 80) ”جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے“ اس لیے آپﷺ نے بعض احکام قرآن سے زائد اور مستقل دئیے ہیں۔ جن کا بعض حضرات نے حیلوں بہانوں سے انکارکیا ہے۔ مثلاً آپ کا ایک شاہد (گواہ) کی موجودگی میں مدعی سے قسم لینا، دودھ روکے ہوئے جانور کو دو صاع کھجور دے کر، جانور کے مالک کو واپس کرنا۔ آپﷺ کا نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا وغیرہ بے شمار احادیث ہیں، جن کو یہ حضرات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔