عبیداللہ بن حسن نے کہا: ہمیں خالد حذاء نے اسی (مذکورہ بالا) سند کے ساتھ اس (سابقہ حدیث) کے ہم معنی حدیث بیان کی، اس کے سوا کہ انھوں نے (واخلفہ فی عقبہ کے بجائے) واخلفہ فی ترکتہ (جو کچھ اس نے چھوڑا ہے، یعنی اہل ومال، اس میں اس کا جانشین بن) کہا، اور انھوں نےاللہم!اوسع لہ فی قبرہ (اے اللہ!اس کے لئے اس کی قبر میں وسعت پیدا فرما) کہا اورافسح لہ (اوراس کے لئے کشادگی پیدا فرما) نہیں کہا اور (عبیداللہ نے) یہ زائد بیان کیا کہ خالد حذاء نے کہا: ایک اور ساتویں دعا کی جسے میں بھول گیا۔
امام صاحب خالد حذاء کی سند سے ہی یہ روایت اپنے دوسرے استاد سے روایت کرتے ہیں۔ اس میں یہ الفاظ ہیں (وَاخْلُفْهُ فِى تَرِكَتِهِ) اس کے پس ماندگان کے لیے تو نگہبان اور محافظ بن کر اس کی جانشینی فرما اور (أفْسَحْ لَهُ) کی جگہ (أوسع له) اس کے لیے وسیع فرما اور خالد حذاء کہتے ہیں، ایک ساتویں دعا بھی کی جو میں بھول گیا ہوں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2131
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (شَقَّ بَصَرُهُ) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں نظر اوپر اٹھ گئی یہی معنی شخص (بَصَرُهُ) کا ہے (تَبعه البصر يا يتبع بصره نفسه) اس کی بنیائی اس کی روح کا پیچھا اور تعاقب کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی نکل جاتی ہے۔ (فِي عَقِبِه فِي الغَابِرِينَ) پیچھے رہ جانے والی اس کی اولاد اور یہی معنی (تركته) کا ہے۔ اوپر جو دعا گزری ہے (اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِي سَلَمَةَ) سے (وَنَوِّرْ لَهُ فِيْهِ) تک چھ کلمات ہیں یا چھ دعائیں ہیں ساتواں کلمہ یا دعا راوی کو بھول گئی۔