وحدثني وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عطاء ، عن ابن عباس ، وعن جابر بن عبد الله الانصاري ، قالا: لم يكن يؤذن يوم الفطر ولا يوم الاضحى، ثم سالته بعد حين عن ذلك، فاخبرني، قال: اخبرني جابر بن عبد الله الانصاري، " ان لا اذان للصلاة يوم الفطر حين يخرج الإمام، ولا بعد ما يخرج، ولا إقامة ولا نداء ولا شيء لا نداء يومئذ ولا إقامة ".وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَا: لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحَى، ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ حِينٍ عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرَنِي، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، " أَنْ لَا أَذَانَ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ حِينَ يَخْرُجُ الْإِمَامُ، وَلَا بَعْدَ مَا يَخْرُجُ، وَلَا إِقَامَةَ وَلَا نِدَاءَ وَلَا شَيْءَ لَا نِدَاءَ يَوْمَئِذٍ وَلَا إِقَامَةَ ".
محمد بن رافع نے کہا: ہم سے عبد الرزاق نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی انھوں نے کہا: مجھے عطاء نے حضرت ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے خبر دی ان دونوں نے کہا: عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن اذان نہیں دی جا تی تھی (ابن جریج نے کہا: کہ) میں نے کچھ عرصے بعد اس کے بارے میں عطاء سے پھر پو چھا تو انھوں نے مجھے جا بر رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ عید الفطر کے دن اذان نہیں ہے نہ اس وقت جب امام نکلے اور نہ نکلنے کے بعدنہ اقامت ہے نہ اعلا ن اور نہ کوئی اور چیز اس د ن نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔
حضرت ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیان کرتے ہیں، عید الفطر کے دن اذان نہیں دی جاتی تھی اور نہ ہی عید الاضحیٰ کے دن۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد اس کے بارے میں عطاء سے پھر پوچھا تو انھوں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سنائی کہ عید الفطر کے دن اذان نہیں ہے امام کے نکلتے وقت اور نہ نہ ہی نکلنے کے بعد، نہ تکبیر ہے اور نہ پکار و صدا اور نہ کوئی اور چیز، نہ اس دن اذان اور نہ اقامت۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2049
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ عیدین کی نماز حنابلہ کے نزدیک فرض کفایہ ہے۔ مالکیہ اور شافعیہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے اور احناف کے نزدیک واجب ہے۔ لیکن جمعہ کی طرح شہر والوں پر واجب ہے دیہات والوں پر نہیں۔ 2۔ عیدین کی نماز کے لیے اذان اور تکبیر نہیں ہے اور عیدین کی نمازمیں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ سمیت سات تکبیریں ہیں اور شوافع کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے بغیر سات تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں ائمہ ثلاثہ کے نزدیک قیام میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں ہیں۔ احناف کے نزدیک پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے تکبیر تحریمہ کے بعد تین تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں قراءت کے بعد تین تکبیریں ہیں اور چوتھی تکبیر رکوع کے لیے ہے۔ راجح یہی ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیرتحریمہ کے علاوہ سات تکبیریں کہی جائیں۔ 3۔ عیدین کا خطبہ جمعہ کے برعکس نماز کے بعد ہے۔ اور اس میں موقع ومحل کے مطابق وعظ ونصیحت اور تذکیر وتلقین ہے۔ اگر عورتوں تک آواز نہ پہنچے کیونکہ وہ الگ مردوں کے پیچھے ذرا ہٹ کرعیدین میں شریک ہوتی ہیں۔ تو ان کو مردوں کے بعد خصوصی ان کے ظروف واحوال کے مطابق وعظ ونصیحت کی جائے گی اور ان کو خصوصی طور پر صدقہ کی ترغیب دی جائے گی۔ اور وہ اپنے زیورات سے خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ کرنے کی مجاز ہیں۔ آج کل لاؤڈ سپیکر کی بنا پر الگ وعظ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ 4۔ عیدین کے لیے اذان، اقامت یا اعلان وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اس تہوار اور جشن مسرت میں خود اپنے طور پر اہتمام کر کے شرکت کرنی ہو گی۔