17. باب: نماز شب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل میں رکعتوں کی تعداد، وتر کے ایک ہونے کا بیان اور اس بات کا بیان کہ ایک رکعت صحیح نماز ہے۔
Chapter: Night prayers and the number of rak`ah offered by the Prophet (saws) at night, and that Witr is one rak`ah, and a one-rak`ah prayer is correct
حدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا حنظلة ، عن القاسم بن محمد ، قال: سمعت عائشة ، تقول " كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل عشر ركعات، ويوتر بسجدة، ويركع ركعتي الفجر، فتلك ثلاث عشرة ركعة ".حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ " كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ عَشَرَ رَكَعَاتٍ، وَيُوتِرُ بِسَجْدَةٍ، وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَتْلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ".
قاسم بن محمد سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، فرمارہی تھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دس رکعتیں تھی اور آپ ایک رکعت وتر ادا کرتے، پھر فجر کی (سنتیں) دو رکعت پڑھتے۔اس طرح یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعات پڑھتے اور ایک وتر پڑھتے اور دو رکعت سنت فجر پڑھتے، یہ تیرہ رکعات ہوئیں۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول قد صام، ويفطر حتى نقول قد أفطر، وما رأيته صائما في شهر قط أكثر من صيامه في شعبان، كان يصومه كله، بل كان يصومه إلا قليلا، وكانت صلاته بالليل في رمضان وغيره ثلاث عشرة ركعة منها ركعتي الفجر
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1727
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں آپﷺ کا معمول یکساں تھا جو عام طور پر وتر سمیت گیارہ رکعات تھا ان میں کمی و بیشی کسی سبب یا عذر کی بنا پر ہوئی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1727
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1341
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔` ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد) کیسے ہوتی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎، آپ چار رکعتیں پڑھتے، ان رکعتوں کی خوبی اور لمبائی کو نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں پڑھتے، ان کے بھی حسن اور لمبائی کو نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں پڑھتے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا ۲؎۔“[سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1341]
1341. اردو حاشیہ: فوائد ومسائل: ➊ نبیﷺ کا قیام اللیل دو دو رکعات اور چار چار رکعات دونوں طرح ثابت ہے۔ تاہم آپ کا اکثر معمول دودورکعت پڑھنے کا تھا۔ ➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خصوصیت سے یہ بتانا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں کبھی بھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے، ان لوگوں پر تعرض ہے، جنہوں نے رمضان میں قیام اللیل کی رکعات میں اضافہ کرنا شروع کردیا تھا، مگر انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ کا قیام، رکوع اور سجود بھی بہت لمبا ہوتا تھا۔ اس لیے عاملین بالسنہ پر لازم ہے کہ دونوں امور کا اہتمام کیا کریں، عدد کا بھی اورکیفیت کا بھی۔ ➌ رسول اللہﷺ کی خصوصیت تھی کہ سونے سے بےوضو نہیں ہوتے تھے۔ اور نبی کا دل کسی بھی وقت غافل نہیں ہوتا کیونکہ وہ مہبط وحی ہوتا ہے۔ اور یہ سوال کہ آپ اور آپ کے صحابہ سفر میں فجر کی نماز کے وقت سوتے رہ گئے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلوع فجر کا تعلق آنکھ کے دیکھنے سے ہے نہ کہ دل کی معرفت سے۔ ➍ حضرت عائشہ رضی للہ عنہا کے سوال جواب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عام لوگوں کو وتروں سے پہلے نہیں سونا چاہیے کہ کہیں رہ نہ جائیں اور رسول اللہﷺ کا معاملہ خاص ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1341
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:173
فائدہ: نفلی روزوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، اور شعبان میں نفلی روزوں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ رمضان اور غیر رمضان میں نماز تہجد، نماز تراویح گیارہ رکعات ہیں، وتروں سمیت، اور صبح کی سنتوں کو ساتھ ملائیں تو تیرہ رکعات بنتی ہیں، جس طرح کہ اس حدیث میں وضاحت ہے۔ یاد رہے نماز تراویح اور نماز تہجد ایک ہی ہیں۔ 20 رکعات تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین وغیرہ سے ثابت نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 173