13. باب: نماز چاشت کے استحباب کا بیان کم از کم اس کی دورکعتیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں اور درمیانی چار یا چھ ہیں اور ان کو ہمیشہ پڑھنے کی ترغیبیں۔
Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly
سعید جزیری نے عبداللہ بن شقیق سے روایت کی، انھوں نےکہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟انھوں نے کہا: نہیں، الا یہ کہ باہر (سفر) سے واپس آئے ہوں۔
عبداللہ بن شفیق بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا، کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا، نہیں، اِلاَّ یہ کہ سفر سے واپس آئیں۔
أكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله يصوم شهرا كله قالت لا ما علمت صام شهرا كله إلا رمضان ولا أفطر حتى يصوم منه حتى مضى لسبيله
أكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله له صوم معلوم سوى رمضان قالت والله إن صام شهرا معلوما سوى رمضان حتى مضى لوجهه ولا أفطر حتى يصوم منه
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1660
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نماز چاشت کے بارے میں مختلف روایات ہیں معلوم ہوتا ہے: آپﷺ نماز چاشت پر مواظبت اور ہمیشگی نہیں فرماتے تھے اس لیے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے آپﷺ کو (گھر میں) میں کبھی چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ دوسروں سے سن کر آپﷺ کے چاشت کی نماز پڑھنے کا تذکرہ فرمایا اور سفر واپسی کی صورت میں پڑھنے کا اعتراف کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1660
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 145
´چاشت کی نماز مستحب ہے` «. . . عن عائشة ام المؤمنين انها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب ان يعمل به خشية ان يعمل به الناس فيفرض عليهم . . .» ”. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز (ہمیشہ) کبھی نہیں پڑھی اور میں اس نماز کو مستحب سمجھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو پسند کرنے کے باوجود (بعض اوقات) اس خوف کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اس پر لوگوں کے عمل کرنے کی وجہ سے فرض نہ ہو جائے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 145]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1128، ومسلم 718، من حديث مالك به نحو المعنيٰ]
تفقه: ➊ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، الا یہ کہ جب سفر سے واپس آتے (تو پڑھتے تھے) دیکھئے: [صحيح مسلم 717] ● دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز چار رکعتیں یا زیادہ پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم: 719] ◄ معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے مگر ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 49/3] ➋ چاشت کی نماز واجب یا سنت موکدہ نہیں ہے بلکہ مستحب اور افضل ہے۔ ➌ چاشت کی نماز دو رکعتیں، چار رکعتیں یا آٹھ رکعتیں ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 719، 720، 721 وصحيح بخاري: 1176، وصحيح مسلم 336 بعدح 719] ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا مسنون ہے۔ ➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہما کو چاشت کی نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [صحيح مسلم:722، 721] ➎ چاشت کی نماز کا وقت سورج کے طلوع کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے اور اس کا افضل وقت اونٹ کے بچے کے پاؤں دھوپ سے گرم ہونے پر ہے۔ [صحيح مسلم: 748] ● اسے صلٰوۃ الاوابین (بہت زیادہ توبہ کرنے والوں کی نماز) بھی کہتے ہیں۔ یہ وقت دن کے ابتدائی تقریباً چوتھے حصے تک ہوتا ہے۔ ➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے فرض نماز پڑھنے کے لئے (مسجد کی طرف) نکلتا ہے تو اسے حج کا ثواب ملتا ہے اور جو چاشت کی نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے تو اسے عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 558، وسنده حسن، ومسند أحمد 268/5] والحمدللہ
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 37
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1292
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔` عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے)۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1292]
1292۔ اردو حاشیہ: صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں تشریف لاتے، دو رکعتیں پڑھتے، احباب سے ملاقات ہوتی، پھر گھر تشریف لے جاتے۔ [صحيح بخاري: 4418]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1292
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1293
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی، لیکن میں اسے پڑھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک عمل کو چاہتے ہوئے بھی اسے محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہو جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1293]
1293۔ اردو حاشیہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کا مفہوم یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نوافل پابندی سے نہیں پڑھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1293
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2187
´اس سلسلہ میں عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، الا یہ کہ سفر سے (لوٹ کر) آتے، پھر میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان کے علاوہ کوئی متعین روزہ تھا؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم آپ نے سوائے رمضان کے کسی خاص مہینے کے روزے نہیں رکھے حتیٰ کہ آپ نے وفات پا لی، اور نہ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2187]
اردو حاشہ: (1) سفر سے واپس تشریف لائیں۔ رسول اللہﷺ عموماً دن چڑھے مدینہ منورہ میں داخل ہوتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور دو رکعت پڑھتے تھے، چاہے اسے نماز ضحیٰ کہہ لیں (وقت کی رعایت سے) یا تحیۃ المسجد (موقع کی مناسبت سے)۔ (2) حضرت عائشہؓ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ نماز ضحیٰ نہیں پڑھتے تھے، لیکن یہ جواب ان کے اپنے علم کے مطابق ہے۔ جن لوگوں نے آپ کو نماز ضحیٰ پڑھتے دیکھا، انہوں نے اس کو ثابت کیا ہے، لہٰذا ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ ویسے بھی نماز ضحیٰ کی فضیلت متعدد قولی احادیث سے ثابت ہے، اس لیے نماز ضحی کے استحباب میں کوئی شک نہیں۔ (صحیح البخاري، التهجد، حدیث: 1176۔ 1178، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 720 722) نہ پڑھنے سے استحباب کی نفی نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي: 21/ 23-26)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2187
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1662
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو چاشت کے نفل پڑھتے نہیں دیکھا اور میں چاشت کی نماز پڑھتی ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کسی کام کو کرنا پسند فرماتے تھے، لیکن اس ڈر سے اسے نہیں کرتے تھے کہ لوگ بھی (آپ ﷺ کو دیکھ کر) وہ کام کریں گے اور وہ (ان کی دلچسپی کی بنا پر) ان پر فرض قرار دے دیا جائے گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1662]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مشاہدہ اور رؤیت کی نفی کی ہے مطلقاً چاشت پڑھنے کا انکار نہیں کیا۔ اس لیے آپﷺ کےنہ پڑھنے کی توجیہ ایسی کی ہے جس کے دوام و ہمیشگی اور دوسروں کے سامنے پڑھنے کی نفی ہوتی ہے اس لیے ایک گروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس روایت کی بنا پر اور بعض دوسری روایات کی بنا پر چاشت کی نماز نہ پڑھنے کو ترجیح دی ہے اور دوسرے گروہ نے آپﷺ کے پڑھنے کی رویات کی بنا پر پڑھنے کو ترجیح دی ہے اور تیسری جماعت نے کبھی کبھار پڑھنے کو ترجیح دی اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے کسی سبب کی بنا پر پڑھنے کو ترجیح دی ہے مثلاً سفر سے واپسی فتح و کامیابی کا حصول کسی کی زیارت و ملاقات کرنے کی صورت میں اس وقت مسجد میں جانے کی بنا پر شکرانہ کے طور پر یا جو کسی دن ضرورت کی بنا پر رات کو تہجد نہ پڑھ سکا تو وہ پڑھ لے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1662
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1177
1177. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر میں اسے ادا کرتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1177]
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے صرف اپنی رؤیت کی نفی کی ہے ورنہ بہت سی روایات میں آپ ﷺ کا یہ نماز پڑھنا مذکور ہے۔ حضرت صدیقہ ؓ کے خود پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس نماز کے فضائل سنے ہوں گے۔ پس معلوم ہوا کہ اس نماز کی ادائیگی باعث اجروثواب ہے۔ اس لفظ سے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔ باب کا مطلب نکلتا ہے، کیونکہ اس کاپڑھنا ضروری ہوتا تو وہ آنحضرت ﷺ کو ہر روز پڑھتے دیکھتیں۔ قسطلانی نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ کے نہ دیکھنے سے چاشت کی نماز کی نفی نہیں ہوتی۔ ایک جماعت صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے۔ جیسے انس، ابوہریرہ، ابو ذر، ابو اسامہ، عقبہ بن عبد، ابن ابی اوفیٰ، ابو سعید، زیدبن ارقم، ابن عباس، جبیر بن مطعم، حذیفہ، ابن عمر، ابو موسی، عتبان، عقبہ بن عامر، علی، معاذ بن انس، ابو بکرہ اور ابو مرہ وغیرہم ؓ نے۔ عتبان بن مالک کی حدیث اوپر کئی بار اس کتاب میں گزر چکی ہے اور امام احمد نے اس کو اس لفظ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے گھر میں چاشت کے نفل پڑھے۔ سب لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1177
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1128
1128. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک کام، اگرچہ وہ آپ کو پسند ہی ہوتا، اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1128]
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ ؓ کو شاید وہ قصہ معلوم نہ ہوگا جس کو ام ہانی ؓ نے نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن چاشت کی نماز پڑھی۔ باب کا مطلب حدیث سے یوں نکلتا ہے کہ چاشت کی نفل نماز کا پڑھنا آپ کو پسند تھا۔ جب پسند ہوا تو گویا آپ ﷺ نے اس پر ترغیب دلائی اور پھر اس کو واجب نہ کیا۔ کیونکہ آپ نے خود اس کو نہیں پڑھا۔ بعضوں نے کہا آپ نے کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہمیشگی کے ساتھ کبھی نہیں پڑھی کیونکہ دوسری روایت سے آپ کا یہ نمازپڑھنا ثابت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1128
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1128
1128. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک کام، اگرچہ وہ آپ کو پسند ہی ہوتا، اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1128]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے عمومی طرز عمل کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا کسی کام کو پسند کرنا اس کام کی ترغیب ہے۔ عنوان کا پہلا حصہ یہی ہے، لیکن اس کام کو اس اندیشے کے پیش نظر ترک کر دینا کہ لوگوں کے مسلسل عمل سے کہیں فرض نہ ہو جائے، اس سے عنوان کا دوسرا جز، عدم وجوب سے ثابت ہوتا ہے، کیونکہ فرض عمل کو کسی خطرے کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ امام مالک ؒ نے موطا میں یہ الفاظ مزید بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں پر تخفیف پسند کرتے تھے تاکہ کسی کام کی وجہ سے ان پر بوجھ نہ ہو۔ (فتح الباري: 18/3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھا کام اگر کسی خرابی کا پیش خیمہ ہو تو اسے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) حضرت عائشہ ؓ نے اپنی معلومات کے پیش نظر نماز چاشت کے متعلق کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے دن حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت پڑھی، نیز آپ نے حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو اس کے پڑھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ نماز چاشت کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1128
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1177
1177. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر میں اسے ادا کرتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1177]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے مزید وضاحت ہے کہ رسول الله ﷺ کی عادت تھی کہ آپ کسی عمل کو پسند کرتے تھے مگر اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی کہ آپ کے عمل کو دیکھ کر لوگ بھی اسے اپنائیں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا۔ اس اندیشے کی بنا پر پسندیدہ ہونے کے باوجود آپ اس پر عمل نہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1662(718) واضح رہے کہ نماز ضحیٰ کا دوسرا نام نماز اشراق ہے۔ وقت ادا کے اعتبار سے اس کے الگ الگ نام ہیں، یعنی اگر طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کریں تو نماز اشراق اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو جائے تو اسے نماز ضحیٰ کہا جاتا ہے۔ اسے محدثین کرام نے ضحوۂ صغریٰ اور ضحوۂ کبریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ اور دھوپ میں اس قدر شدت آ جائے کہ پاؤں جلنے لگیں لیکن زوال سے پہلے پڑھیں تو اسے صلاۃ الاوابین کہتے ہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے نماز اشراق کے متعلق اختلاف بیان کرتے ہوئے مختلف مسالک کی نشاندہی کی ہے جس کی مختصراً تفصیل کچھ یوں ہے: ٭ نماز اشراق مستحب ہے، البتہ اس کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ٭ کسی سبب کی وجہ سے اس کا اہتمام کیا جائے، مثلاً: کسی شہر کے فتح ہونے پر یا کسی مخالف کی موت پر یا کسی کے ہاں زیارت کے لیے جانے پر یا سفر سے واپسی پر۔ ٭ سرے سے مشروع نہیں، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ٭ اس پر مداومت نہ کی جائے بلکہ کبھی پڑھ لی جائے اور کبھی چھوڑ دی جائے۔ ٭ اس کے پڑھنے کا اہتمام گھروں میں کیا جائے، مساجد وغیرہ میں اس کا اظہار درست نہیں۔ ٭ یہ مستحب نہیں بلکہ بدعت ہے۔ (زادالمعاد: 351/1)(2) حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اس تفصیل کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 72/3) ہمارے نزدیک پہلا موقف راجح ہے اور اس کی کم از کم تعداد دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات ہیں، چنانچہ معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز اشراق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ چار رکعت پڑھتے تھے اور جس قدر اللہ چاہتا آپ اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1883(719) حضرت عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی ﷺ کے متعلق پوچھا کہ آیا آپ نماز اشراق پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: جب آپ سفر سے واپس آتے تو اشراق پڑھ کر گھر آتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1660(717) حضرت ام ذرہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز اشراق پڑھتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے نماز اشراق کی چار رکعات پڑھتے دیکھا ہے۔ (مسند أحمد: 108/8) روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نماز اشراق بڑے اہتمام سے ادا کرتیں اور فرمایا کرتی تھیں: اگر میرے والدین بھی زندہ ہو کر آ جائیں تب بھی میں نماز اشراق نہیں چھوڑوں گی۔ (الموطأ للإمام مالك، باب صلاة الضحیٰ: 52/1، 53)(3) نماز اشراق کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اے ابن آدم! تو میرے لیے چار رکعت (اشراق کی) اول دن میں پڑھ، میں اس دن کی شام تک تیرے کام سنوار دوں گا۔ “(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1289) امام نووی ؒ نے اپنی شرح صحیح مسلم میں نماز اشراق کی احادیث کے پیش نظر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ”نماز اشراق کے استحباب کا بیان، اس کی کم از کم دو رکعات اور مکمل آٹھ رکعات ہیں، درمیانے درجے کی چار یا چھ رکعات ادا کرنا اور شوق سے اس کی پابندی کا بیان“ چونکہ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات مروی ہیں، اس لیے جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی نفی سے مراد دوام ہے اور وہ خود اس کی پابندی کرتی تھیں۔ اس کی وجہ بھی انہوں نے خود بیان کر دی ہے کہ آپ اس لیے پابندی نہیں کرتے تھے کہ مبادا فرض ہو جائے۔ (فتح الباري: 73/3) واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1177