ہم سے ابو جعفرمحمد بن صباح اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی۔حدیث کے لفظوں میں بھی دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔دونوں نے کہا: ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، انھوں نے حجاج صوّاف سے انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑ ھ رہاتھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: یرحمک اللہ”اللہ تجھ پر رحم کرے۔“ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔میں نے (دل میں) کہا: میری ماں مجھے گم پائے، تم سب کو کیا ہو گیا؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھروہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا) لیکن میں خاموش رہا، جب رسو ل اللہ نماز سے فارغ ہوئے، میرے ماں باپ آپ پرقربان!میں نے آپ سےپہلے اور آپکے بعدآپ سے بہتر کوئی معلم (سکھانےوالا) نہیں دیکھا!اللہ کی قسم!نہ تو آپنے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپنے فرمایا: ”یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روانہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔“ یا جیسے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ!ابھی تھوڑا عرصہ پہلے جاہلیت میں تھا، اور اللہ نے اسلام سے نوازدیا ہے، ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے) کے پاس جاتے ہیں۔آپنے فرمایا: ”تم ان کے پاس نہ جانا۔“ میں نے عرض کی: ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو بدشگونی لیتےہیں۔آپن فرمایا: ”یہ ایسی بات ہے جو وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (ایک طرح کا وہم ہے) یہ (وہم) انھیں (ان کے) کسی کام سے نہ روکے۔“ (محمد) ابن صباح نے روایت کی: ”یہ تمہیں کسی صورت (اپنے کاموں سے) نہ رزکے۔“ میں نے عرض کی: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچھنے ہیں۔“ آپنے فرمایا: ”سابقہ انبیاء میں سے ایک بنی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے موافق ہو جائیں وہ تو صحیح ہو سکتی ہیں“ (لیکن اب اس کا جاننا مشکل ہے۔) (معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے) کہا: میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف جاانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا۔میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرناچاہیے تھا) لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑجڑدیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اآپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط) حرکت قرار دیا۔میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!کیا میں اسے آزادنہ کردوں؟آپ نےفرمایا: ”اسے میرےپاس لے آؤ۔“ میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا، آپ نےاس سے پوچھا: ”اللہ کہا ں ہے؟“ اس نےکہا: آسمان میں۔ آپ نےپوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نےکہا: آپ اللہ کےرسول ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے
حضرت معاویہ بن حکم سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، اسی اثنا مین لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: (یَرْحَمُكَ اللُّٰہ) اللّٰہ تجھے رحمت سے نوازے۔ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا: کاش میری ماں مجھے گم پاتی (میں مر چکا ہوتا) تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہے ہو تو وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے، جب میں نے ان کو جانا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں تو مجھے غصہ آیا لیکن میں خاموش ہو گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر سکھانے والا نہیں دیکھا، اللّٰہ کی قسم! نہ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹا نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نماز، اس میں کسی قسم کی انسانی گفتگو روا نہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔ یا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جاہلیت سے نیا نیا نکلا ہوں اور اب اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام بھیج دیا ہے (مجھے اسلام لانے کی توفیق دی ہے) ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے پنڈت و نجومی) کے پاس جاتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان کے پاس نہ جا۔“ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ بد شگونی لیتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں، یہ ان کو کسی کام سے نہ روکے۔“ ابن صباح نے کہا، ”تمہیں بالکل نہ روکے۔“ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں اس کے موافق ہوں گی تو ٹھیک ہے۔“ اس (معاویہ رضی اللہ عنہ) نے بتایا، میری ایک لونڈی تھی، جو احد اور جوانیہ کے پاس میری بکریاں چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف آ نکلا تو بھیڑیا اس کی بکریوں سے ایک بکری لے جا چکا تھا تو میں بھی اولاد آدم سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اس طرح غصہ آتا ہے، جس طرح ان کو غصہ آتا ہے، (مجھے صبر کرنا چاہیے تھا) لیکن میں نے اس کو زور سے تھپڑ رسید کر دیا، اس پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میری اس حرکت کو بہت ناگوار قرار دیا، میں نے عرض کیا، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس کو آزاد نہ کردوں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے پاس لاؤ۔“ میں اسے لے کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا، ”اللّٰہ کہاں ہے؟“ اس نے کہا آسمان پر۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا، اللّٰہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔“