الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1164
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں آپﷺ کی پانچ امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپﷺ کے صرف یہی پانچ امتیازی اوصاف ہیں کیونکہ مقصود حصر نہیں ہے اور جس شفاعت کو آپﷺ کا خاصہ قراردیا گیا ہے اس سے مراد شفاعت کبریٰ ہے یعنی جس کے نتیجہ میں انسانوں کا محشر میں حساب کتاب شروع ہو گا۔ اور اس شفاعت کے بعد اور انبیاء علیہ السلام، ملا ئکہ، اللہ تعالیٰ کے نیک بندے، علماء، شہداء اپنے سے تعلق رکھنے والے اہل ایمان کے حق میں سفارش کریں گے۔ یہاں تک کہ چھوٹی عمر میں فوت ہو جانے والے بچے بھی اپنے والدین کے لیے سفارش کریں گے اس طرح بعض اعمال صالحہ بھی اپنے عاملوں کے حق میں سفارش کریں گے اور ان سفارشوں کا تعلق آخرت سے ہے باقی رہا دنیا میں سفارش تو اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخرت میں سفارش اللہ کی اجازت اور مرضی سے ہو گی وہی سفارش کر سکے گا جس کو سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اس لیے فرمایا: ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ﴾ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے: ﴿مَن﴾ کا لفظ عام ہے اس لیے کسی نبی اور فرشتے کو بھی یہ مجال نہیں ہو گی کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے، دوسری جگہ فرمایا: ﴿مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ﴾(یونس) کوئی ایک بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرے گا۔ سفارش بھی صرف اسی کے بارے میں ہو سکے گی جس کے بارے میں اجازت مل جائے فرمایا: ﴿لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا﴾(طہٰ) سفارش صرف اس شخص کو نفع دے گی جس کے حق میں رحمٰن نے اجازت دی اور اس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کیا۔ سورہ انبیاء میں فرشتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ﴾ وہ صرف اسی کے لیے سفارش کریں گے جس کے لیے وہ پسند فرمائے گا اور سفارش اتنی ہی کریں گے جتنی کی اجازت ہو جیسا کہ ﴿وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا﴾ سے ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے۔ ”ہم ہر قسم کی شفاعت کے قائل ہیں خواہ یہ شفاعت بالاذن ہو یا لِوَجَاھت ہو یا بالمحبت ہو“ کیونکہ شفاعت کی اجازت ہی نہیں ملے گی جن کو اللہ کے ہاں وجاہت حاصل ہو گی یا وہ اللہ کی محبت کے مستحق ہوں گے پھر اس کے لیے بلا ضرورت طول بیانی سے کام لیا گیا ہے اور عجیب بات یہ شروع میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اس بخشش میں اس پر کسی کا اجارہ نہیں کسی کا زور نہیں وہی تنہا اس مغفرت اور کرم گری کا مالک ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے مقبول اور مقرب بندوں کی عزت اور وجاہت دکھلانے کے لیے اپنے محبوب اور پسندیدہ بندوں کی شان ظاہر کرنے کے لیے اپنے عباد و خواص کی خصوصیت جتلانے کے لیےان کو روز حشر یہ اعزاز بخشے گا یہ مقام عطا فرمائے گا انہیں اجازت دے گا اذن مرحمت فرمائے گا کہ وہ اس کے گنہگار بندوں کی شفاعت کریں اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ان کی شفاعت قبول فرما کر بےحساب گنہگاروں کو بخش دے گا۔ (شرح صحیح مسلم 2 /38) از علامہ غلام رسول سعیدی) اب اس کے بعد یہ کہنا محض ایک جسارت ہے کہ دنیا میں (وہابیہ) طلب شفاعت کے قائل نہیں (کیا ہر وہابی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب نہیں کرتا اور دوسروں سے بخشش کی دعا نہیں کراتا) پھر کہنا وہابیہ آخرت میں شفاعت بالإِ ذن کے قائل ہیں شفاعت بالوجاہت اور شفاعت بالمحبت کے قائل نہیں۔