45. باب: سجدوں میں میانہ روی اور سجدہ میں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے اوپر رکھنے اور پیٹ کو رانوں سے اوپر رکھنے کا بیان۔
Chapter: Moderation In Prostration; Placing The Hands On The Ground, Keeping The Elbows Up, Away From The Sides, And Lifting The Belly Up Off The Thighs When Prostrating
بکر بن مضر نے جعفر بن ربیعہ سے، انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن ملک سے، جو ابن بحینہ رضی اللہ عنہ ہیں، روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح کھول دیتے (اپنے پہلوؤں سے الگ کر لیتے تھے) یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو جاتی تھی۔
حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح کھول دیتے یعنی اپنے پہلوؤں سے الگ رکھتے تھے، یہاں تک کہ بغل کی سفیدی نظر آتی تھی۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 235
´نماز کی صفت کا بیان` «. . . وعن ابن بحينة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كان إذا صلى وسجد فرج بين يديه حتى يبدو بياض إبطيه. متفق عليه. . . .» ”. . . سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ادا فرماتے اور سجدہ کرتے تو اس حالت میں اپنے دونوں بازو اپنے پہلووں سے الگ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔ (بخاری و مسلم) . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 235]
لغوی تشریح: «فَرَّجَ» تفریج (باب تفعیل) سے ماضی کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی ہیں: دونوں پلوؤں کے درمیان دوری، کشادگی اور فراخی پیدا کرنا ہے۔
فائدہ: اس حدیث سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازوؤں کو اپنی رانوں سے اتنا الگ رکھے کہ بغلوں کا اندرون بھی نمایاں ہو جائے۔ اس حدیث کی بنا پر امام طبری رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں جسم اطہر کے دوسرے اعضاء کی طرح سفید تھیں، سیاہ نہ تھیں۔ یہ آپ کی دیگر خصوصیات و امتیازات کی طرح ایک خصوصیت ہے۔ اس خصوصیت کی تصریح طبری نے کتاب الاحکام کے باب الاستسقاء میں کی ہے کہ آپ کی بغلیں دوسروں کی طرح سیاہ نہ تھیں بلکہ سفید تھیں۔
راویٔ حدیث: (سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ) ان کا پورا نام عبداللہ بن مالک بن قشب (”قاف“ کے نیچے کسرہ اور ”شین“ ساکن) أزدی ہے۔ اور بُحینہ (تصغیر کے ساتھ) ان کی والدہ کا نام ہے۔ والدہ کے نام سے مشہور ہوئے ہیں ورنہ والد کا نام مالک ہے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ بڑے زاہد، شب زندہ دار اور صائم النہار تھے۔ دنیا سے بڑے بے رغبت تھے۔ مدینے سے تیس میل کے فاصلے پر واقع وادیٔ ریم میں 54 اور 58 ہجری کے درمیان وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 235
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1107
´سجدہ کرنے کا طریقہ۔` عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ کشادگی رکھتے، یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہو جاتی۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1107]
1107۔ اردو حاشیہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بغلوں کے بال صاف رکھتے تھے، اس لیے سفید چمڑا نظر آتا تھا یا بالوں کے اردگرد کی سفیدی مراد ہو گی۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1107
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 807
807. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی رکھتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں ہو جاتی تھی۔ لیث نے کہا کہ مجھے بھی جعفر بن ربیعہ نے اسی طرح بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:807]
حدیث حاشیہ: امام شافعی ؒ نے کتاب الأم میں کہا ہے کہ سجدے میں کہنیاں پہلو سے الگ رکھنا اور پیٹ کو رانوں سے جدا رکھنا سنت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 807
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:390
390. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں کو کشادہ رکھتے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں طور پر ظاہر ہوتی۔ لیث کہتے ہیں: جعفر بن ربیعہ نے مجھ سے اس طرح کی روایت بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:390]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ اس باب میں اتمام سجدہ کی مزید تشریح کر رہے ہیں کہ سجدہ کرتے وقت ہاتھوں کو کشادہ اور انھیں پہلوؤں سے الگ رکھنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اسی انداز سے کرتے تھے۔ نیز دوران سجدہ میں اپنی کہنیوں کو پہلوؤں سے الگ رکھتے۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہےکہ بوقت سجدہ جسم کے تمام اعضاء سجدہ کرتے ہیں، اگر جسم کو سمیٹ کر اور اعضائے جسم کو آپس میں ملا کر سجدہ کیا جائے تو سب اعضاء سمٹ کر ایک ہی عضو کی شکل اختیار کر جائیں گے اور ہر عضو کو مستقل طور پر سجدے کا حصہ نہیں مل سکے گا جو شریعت کو مطلوب ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہےکہ بندہ جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضائے جسم بھی سجدہ کرتے ہیں چہرہ، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنےاور دونوں پاؤں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ چہرے کی طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 891۔ 892) یہی وجہ ہے کہ دوران سجدہ میں افتراش ذراعین (بازوؤں کو بچھانے) کی ممانعت آئی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ حضرت بحینہ ؓ حضرت عبد اللہ ؓ کی والدہ کا نام ہے اور حضرت مالک ؓ ان (عبد اللہ ؓ) کے والد کا نام ہے۔ عام دستور سے ہٹ کر حضرت عبد اللہ ؓ کا انتساب ماں باپ دونوں کی طرف کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مالک کے آخر میں تنوین پڑھی جاتی ہے اور ابن بحینہ میں ابن کے الف کو لکھنا چاہیے، کیونکہ اس مقام پر ابن مالک ؓ کی صفت نہیں۔ (عمدة القاري: 356/3) 3۔ امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کی ہے جسے امام مسلم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو بازوؤں سے دور رکھتے، یہاں تک کہ میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیتا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1106۔ (495) اس تعلیق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حدیث مذکورمیں بکر نامی راوی نے اپنے شیخ جعفر بن ربیعہ سے بصیغہ عن بیان کیا تھا اور لیث نے ان سے تحدیث کی صراحت کی ہے، نیز اس روایت میں لفظ سجدہ کی صراحت نہ تھی (إذَا صَلَّى) کے الفاظ تھے، جبکہ لیث کی روایت میں (إذَا سَجَدَ) کی صراحت ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے خود بھی ایک روایت میں (إذَا سَجَدَ) کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (صحیح البخاری، المناقب، حدیث: 3546)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 390
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:807
807. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی رکھتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں ہو جاتی تھی۔ لیث نے کہا کہ مجھے بھی جعفر بن ربیعہ نے اسی طرح بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:807]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ درندے کی طرح اپنے ہاتھ مت بچھاؤ، اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھو، اپنے بازوؤں کو کشادہ کرو، جب تم نے ایسا کیا تو گویا تمہارے تمام عضو نے سجدہ کیا۔ اسی طرح حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سجدے کے وقت اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھو اور اپنی کہنیوں کو اونچا کرو۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1104 (494) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس طرح کی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بازو کشادہ کر کے سجدہ کرنا ضروری ہے لیکن ابوداود کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا مستحب ہے، ضروری نہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دوران سجدہ میں بازوؤں کی کشادگی کی وجہ سے مشقتِ سجدہ کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ گھٹنوں سے مدد لو، یعنی ان پر اپنی کہنیاں ٹیک کر سکون اور آرام حاصل کر لو۔ امام ابوداود نے اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: کشادگی چھوڑ دینے کی رخصت، (سنن أبي داود، الصلاة،حدیث: 902 وفتح الباري: 381/2) حالانکہ رخصت کی صورت ایک عذر کی بنا پر ہے کہ طوالت سجدہ کے وقت تھکاوٹ دور کرنے کے لیے گھٹنوں سے مدد لی جا سکتی ہے لیکن عام حالات میں بازوؤں کو دوران سجدہ میں اپنے پہلو سے الگ رکھا جائے۔ امام ترمذی ؒ نے گھٹنوں سے مدد لینے کا حکم سجدے سے فراغت کے بعد قیام کے لیے اٹھنے کے وقت مراد لیا ہے۔ امام طحاوی ؒ نے قومے کے بعد سجدے کو جاتے ہوئے گھٹنوں کی مدد لینا مراد لیا ہے۔ الغرض یہ چار صورتیں الگ الگ ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ امام بخاری ؒ نے سجدے کی صحیح صورت عام حالات کے لیے بیان کی ہے۔ ٭ امام ابوداود ؒ نے عذر کے وقت رانوں پر کہنیاں ٹیکنے کی اجازت کا ذکر کیا ہے۔ ٭ امام ترمذی ؒ نے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت گھٹنوں کی مدد لینا بیان کیا ہے۔ ٭ امام طحاوی نے قومے سے سجدے کو جاتے ہوئے گھٹنوں کی مدد لینا ذکر کیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں بیان کیا ہے کہ لیث نے بھی اسی طرح جعفر بن ربیعہ سے بیان کیا ہے، یعنی یہ حدیث بیان کرنے میں بکر بن مضر متفرد نہیں۔ حضرت لیث کی حدیث کو امام مسلم نے بایں الفاظ موصول بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی بغلوں سے ہاتھوں کو دور رکھتے یہاں تک کہ میں آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لیتا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1106 (495)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 807