4. باب: بیان اس ایمان کا جس سے آدمی جنت میں جائے گا اور بیان اس بات کا کہ حکم بجا لانے والا جنت میں جائے گا۔
Chapter: Explaining the faith by means of which a person is admitted into paradise, and that the one who adheres to what is enjoined upon him will enter paradise
وحدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن اعين ، حدثنا معقل وهو ابن عبيد الله ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، ان رجلا، سال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ارايت إذا صليت الصلوات المكتوبات، وصمت رمضان، واحللت الحلال، وحرمت الحرام، ولم ازد على ذلك شيئا، اادخل الجنة؟ قال: نعم "، قال: والله لا ازيد على ذلك شيئا.وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَجُلًا، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَرَأَيْتَ إِذَا صَلَّيْتُ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ، وَصُمْتُ رَمَضَانَ، وَأَحْلَلْتُ الْحَلَالَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ، وَلَمْ أَزِدْ عَلَى ذَلِكَ شَيْئًا، أَأَدْخُلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: نَعَمْ "، قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ شَيْئًا.
سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل یعنی عبد اللہ، ابوالزبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اگر میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور حلال کو حلال سمجھتے ہوئے اس سے بچتا رہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے کہ کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤ نگا؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں!اس شخص نے عرض کیا اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرونگا-
حضرت جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، بتلائیے جب میں فرض نمازیں ادا کروں، اور میں رمضان کے روزے رکھوں اور میں حلال کو حلال سمجھوں اور میں حرام سے اجتناب کروں اور اس پر کچھ اضافہ نہ کروں تو کیا جنت میں داخل ہو جاؤں گا آپؐ نے فرمایا: ”ہاں۔“ ا س نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر کچھ اضافہ نہیں کروں گا۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 15
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2950)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 110
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: أَحْلَلْتُ الْحَلَالَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ: میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یا عہد کیا گیا ہے کہ میں شریعت کی تمام حدود وقیود کی پابندی کروں گا۔ نیز نماز کی پابندی اور اہتمام، پورے دین کے قیام اور بقا کا باعث ہے، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: (مَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَه)(موطا) جس نے نما ز کو دیا رکھا اور اس کی حفاظت وپابندی کی، اس نے اپنے دین کی یاد رکھا۔ “ اس لیے یہ وہم نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ اس میں ایمان کے کسی رکن کا تذکرہ نہیں ہے اور نہ ہی اسلام کے تمام ارکان بیان ہوئے ہیں۔