الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
42. باب مَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ:
42. باب: رکوع اور سجدہ میں کیا کہے۔
Chapter: What Is To Be Said While Bowing And Prostrating
حدیث نمبر: 1090
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا ابو اسامة ، حدثني عبيد الله بن عمر ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، عن عائشة ، قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ليلة من الفراش، فالتمسته فوقعت يدي على بطن قدميه، وهو في المسجد، وهما منصوبتان، وهو يقول: " اللهم اعوذ برضاك من سخطك، وبمعافاتك من عقوبتك، واعوذ بك منك، لا احصي ثناء عليك انت، كما اثنيت على نفسك ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ، فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ، وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ، وَهُوَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ، كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو آپ کو ٹٹولنے لگی، میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کے تلوے پر پڑا، اس وقت آپ سجدے میں تھے، آپ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے اور آپ کہہ رہے تھے: اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری ثنا پوری طرح بیان نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود بیان کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ٹٹولنے لگی تو میرا ہاتھ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے تلوؤں پر پڑا، اس وقت آپصلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کھڑے تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور عرض کر رہے تھے: اے اللہ میں تیری ناراضی سے تیری رضامندی کی پناہ لیتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ لیتا ہوں، اور تیری پکڑ سے بس تیری ہی پناہ لیتا ہوں، میں تیری صفت و ثنا پوری طرح بیان نہیں کر سکتا، (بس یہی کہہ سکتا ہوں) کہ تو ویسا ہے جیسا کہ تو نے خود اپنے بارے میں بتلایا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 486

   سنن النسائى الصغرى169عائشة بنت عبد اللهأعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
   سنن النسائى الصغرى1101عائشة بنت عبد اللهأعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وبك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
   سنن النسائى الصغرى1131عائشة بنت عبد اللهأعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
   صحيح مسلم1090عائشة بنت عبد اللهأعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
   جامع الترمذي3493عائشة بنت عبد اللهأعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
   سنن أبي داود879عائشة بنت عبد اللهأعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
   سنن ابن ماجه3841عائشة بنت عبد اللهأعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك
   سنن النسائى الصغرى5536عائشة بنت عبد اللهأعوذ بعفوك من عقابك وأعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بك منك
   المعجم الصغير للطبراني28عائشة بنت عبد الله أخذك شيطانك يا عائشة ، قلت : ولي شيطان ؟ ، فقال : نعم ، ولجميع بني آدم ، قلت : ولك شيطان ؟ ، فقال ، قال : نعم ، ولكن الله أعانني عليه فأسلم
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1090 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1090  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
رِضَا کے مقابلہ میں سَخَط ہے اور مُعَافَاة کے مقابلہ میں عُقُوبَت ہے۔
اس لیے ان کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھا لیکن بك یعنی اللہ اس کا مقابل نہیں ہو سکتا،
اس لیے کہا منك،
خلاصہ کلام یہی ہے تیری پکڑ سے تیرے سوا کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔
مسجدا:
جیم پر زبر ہو تو مصدر میمی یا ظرف ہو گا اور اگر زیر ہو تو گھر کی نماز گاہ مراد ہو گی۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا،
اگرچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے اِلَّا یہ اس سے انسان کا عضو مخصوص متاثرہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1090   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 169  
´بغیر شہوت بیوی کو چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا، تو اپنے ہاتھ سے آپ کو ٹٹولنے لگی، تو میرا ہاتھ آپ کے قدموں پر پڑا، آپ کے دونوں قدم کھڑے تھے اور آپ سجدے میں تھے، کہہ رہے تھے: «أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» اے اللہ! پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، اور تیری عافیت کی تیرے عذاب سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری شمار کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف کی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 169]
169۔ اردو حاشیہ:
➊ مندرجہ بالا چاروں احادیث باب کے مضمون پر دلالت کرتی ہیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے پیش نظر نماز کے دوران میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوا اور نماز پڑھتے رہے، گویا وضو نہ ٹوٹا۔ چوتھی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا اور نماز میں کوئی فرق نہ پڑا۔
➋ یہ باب قائم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض فقہاء، مثلاً: امام شافعی رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ذخیرہ حدیث میں ہے تو کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جس میں عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹنے کا صراحتاً یا اشارتاً ذکر ہو بلکہ اس کے خلاف بہت ساری احادیث ہیں، البتہ قرآن مجید کی ایک آیت کے الفاظ: ﴿اولامستم النسآء﴾ [المآئدۃ 6: 5]
سے استدلال کیا جاتا ہے مگر یہ استدلال عقلاً اور نقلاً بعید ہے۔ یہاں یہ الفاظ جماع کا مفہوم مراد لینے کے لیے آئے ہیں نہ کہ مطلق چھونے کے لیے، نیز یہ معنیٰ مراد لینے سے ان تمام احادیث کی دورازکار تاویلیں کرنی پڑیں گی یا انہیں چھوڑنا پڑے گا۔ دونوں صورتیں اچھی نہیں۔
➌ امام نسائی رحمہ اللہ کے باب اور احادیث سے واضح ہے کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، چاہے شہوت سے ہو (جیسا کہ اگلے باب میں وضاحت ہے) یا بغیر شہوت کے جیسا کہ اس باب کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
➍ ان روایات سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے لیٹا ہوا ہونا، خواہ اس کی بیوی ہی ہو کوئی حرج والی بات نہیں، البتہ نمازی کے آگے سے گزرنا ایک الگ چیز ہے، اس سے نمازی کے خشوع میں فرق پڑے گا اور گزرنے والا سخت گناہ گار ہو گا۔
➎ سجدے میں پاؤں گاڑنا (سیدھے کھڑے رکھنا) مستحب ہے۔
➏ سجدے میں دعا کرنا مستحب عمل ہے کیونکہ یہ قبولیت دعا کی حالت ہے۔
➐ اللہ تعالیٰ کے غصے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگتے رہنی چاہیے۔
➑ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی بیان کرتے ہوئے مخلوق کا اس کی کماحقہ تعریف کرنے سے عاجزی کا اعتراف کرتے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 169   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1101  
´سجدے میں دونوں پیر کھڑا رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پہ نہیں ملے تو میں تلاش کرتی ہوئی آپ تک پہنچی، آپ سجدے میں تھے، آپ کے دونوں قدم کھڑے تھے، اور آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے: «اللہم إني أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وبك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، تیرے عفو و درگزر کی تیری سزا اور عقوبت سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں تیرے غضب سے، میں تیری تعریف کی طاقت نہیں رکھتا، تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف بیان کی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1101]
1101۔ اردو حاشیہ: سجدے کی حالت میں فطری طور پر پاؤں کھڑے ہی ہوتے ہیں۔ اس فطرت کو قائم رہنا چاہیے، یعنی پاؤں کو کسی ایک طرف بچھایا نہ جائے بلکہ پاؤں سیدھے کھڑے ہوں اور ایڑیاں ملی ہوئی ہوں، درمیان میں فاصلہ نہ ہو۔ انگلیاں جس قدر مڑ سکیں انہیں قبلہ رخ موڑ لیا جائے۔ جو نہ مڑ سکیں انہیں زمین پر لگا لیا جائے۔ چھوٹی انگلیاں زمین پر نہ لگ سکیں تو کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1101   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1131  
´سجدے کی ایک اور دعا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر پر) موجود نہیں پایا، تو دیکھا کہ آپ سجدے کی حالت میں ہیں، اور آپ کے دونوں قدموں کے پنجے قبلہ رخ ہیں، تو میں نے آپ کو سجدہ میں کہتے سنا: «أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، میں پناہ مانگتا ہوں تیری معافی کی تیری سزا سے، اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری تجھ سے، میں تیری حمد و ثنا کا حق نہیں ادا کر سکتا، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1131]
1131۔ اردو حاشیہ: اپنی تعریف آپ کرنا ہم میں معیوب ہے کیونکہ مبالغہ آرائی اور تکبر کا ڈر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں ہر مبالغہ حقیقت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر بزرگی اور بڑائی کا مالک ہے۔ اسے تکبر جچتا ہے، لہٰذا وہ اپنی تعریف آپ کرتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1131   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5536  
´اللہ تعالیٰ کے غصے اور ناراضگی سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر ڈھونڈا تو آپ کو نہیں پایا، چنانچہ میں نے اپنا ہاتھ بستر کے سرہانے پر پھیرا تو وہ آپ کے قدموں کے تلوے سے جا لگا، دیکھا تو آپ سجدے میں تھے، اور فرما رہے تھے: «أعوذ بعفوك من عقابك وأعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بك منك» میں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ مانگتا ہوں، تیرے غصے اور ناراضگی سے تیری رضا مندی کی پنا [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5536]
اردو حاشہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اچانک جاگیں تو آپ کوبستر پرنہ پا کر پریشان ہوگئیں۔ فرما رہے تھے گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اچانک جاگیں تو آپ کو بستر پرنہ پا کر پریشان ہوگئیں۔ فرما رہے تھے گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ لگنے کے بعد آپ نے اونچا پڑھنا شروع کردیا تاکہ پتا چل جائے کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالی کی رضا مندی کی پناہ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہےکہ اے اللہ! تو مجھ پر راضی ہوجا۔ ناراض نہ رہنا وغیرہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5536   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3841  
´جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ چاہی ہے ان کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر موجود نہ پایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے لگی (مکان میں اندھیرا تھا) تو میرا ہاتھ آپ کے قدموں کے تلووں پر جا پڑا، دونوں پاؤں کھڑے تھے اور آپ (حالت سجدہ میں) یہ دعا کر رہے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، اور تیری عافیت کی تیری سزا سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیرے عذاب سے، می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3841]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:

(1)
نماز تہجد بڑا فضل عمل ہے کیونکہ اس میں اللہ کے سامنے عجز و انکسار کا زیادہ اظہار ہو سکتا ہے۔

(2)
سجدہ نماز کا اہم رکن ہے، لہٰذا نفلی نماز میں سجدے کی حالت میں خوب دعا مانگنی چاہیے۔

(3)
اللہ کی صفات کا ذکر کر کے پناہ مانگنا درست ہے کیونکہ وہ اللہ سے پناہ مانگنے میں شامل ہے۔

(4)
تجھ سے تیری پناہ کا مطلب یہ کہ تیرے عتاب اور غضب سے مجھےکوئی نہیں بچا سکتا۔
صرف تو ہی رحمت کر کے معاف کر دے تو میں تیرے عذاب سے بچ سکتا ہوں۔ 5۔
انسان اللہ کی تعریف کماحقہ کرنے سے عاجز ہے۔
اس بات کا اقرار کرنا بھی اس کی عظمت کا اعتراف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3841   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3493  
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی، رات میں نے آپ کو اپنی جگہ نہ پا کر آپ کو ادھر ادھر تلاش کیا، ٹٹولا، میرا ہاتھ آپ کے قدموں پر پڑا، اس وقت آپ سجدے میں تھے، اور یہ دعا پڑھ رہے تھے: «أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» اے اللہ! میں تیری رضا و خوشنودی کے ذریعہ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیرے عفو درگزر کے سہارے تیری سزا و عذاب سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری ثناء، تیری تعریف کی گنتی اور اس کا احصاء و احاطہٰ نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3493]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری رضا وخوشنودی کے ذریعہ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں،
اور تیرے عفو درگزر کے سہارے تیری سزا و عذاب سے پناہ مانگتا ہوں،
میں تیری ثناء،
تیری تعریف کی گنتی اوراس کا احصاء و احاطہ نہیں کر سکتا،
تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تونے خود آپ اپنی ذات کی تعریف کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3493   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.