حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عمرو بن عثمان ، حدثنا موسى بن طلحة ، حدثني عثمان بن ابي العاص الثقفي ، " ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: ام قومك، قال: قلت: يا رسول الله، إني اجد في نفسي شيئا، قال: ادنه، فجلسني بين يديه، ثم وضع كفه في صدري بين ثديي، ثم قال: تحول، فوضعها في ظهري بين كتفي، ثم قال: ام قومك، فمن ام قوما، فليخفف، فإن فيهم الكبير، وإن فيهم المريض، وإن فيهم الضعيف، وإن فيهم ذا الحاجة، وإذا صلى احدكم وحده، فليصل كيف شاء ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيُّ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: أُمَّ قَوْمَكَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي شَيْئًا، قَالَ: ادْنُهْ، فَجَلَّسَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ فِي صَدْرِي بَيْنَ ثَدْيَيَّ، ثُمَّ قَالَ: تَحَوَّلْ، فَوَضَعَهَا فِي ظَهْرِي بَيْنَ كَتِفَيَّ، ثُمَّ قَالَ: أُمَّ قَوْمَكَ، فَمَنْ أَمَّ قَوْمًا، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ، وَإِنَّ فِيهِمُ ذَا الْحَاجَةِ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ وَحْدَهُ، فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ ".
موسیٰ بن طلحہ نے کہا: مجھے حضرت عثمان بن ابو عاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ” اپنی قوم کی امامت کراؤ۔“ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے دل میں کچھ محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے قریب ہو جاؤ۔“ آپ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر اپنی ہتھیلی میر ی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھی، اس کے بعد فرمایا: ”رخ پھیرو۔“ اس کے بعد آپ نے ہتھیلی میری پشت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھی، پھر فرمایا: ” اپنی قوم کی امامت کراؤ اور جو لوگوں کا امام بنے، وہ تخفیف کرے کیونکہ ان میں بوڑھے ہوتے ہیں، ان میں بیمار ہوتے ہیں، ان میں کمزور ہوتے ہیں اور ان میں ضرورت مند ہوتے ہیں، جب تم میں سے کوئی اکیلا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے۔“
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی قوم کی امامت کراؤ“۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ جھجک محسوس ہوتی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہوجا“۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر اپنی ہتھیلی میرے سینہ پر میرے پستانوں کے درمیان رکھی، پھر فرمایا: ”پھر جا“ پھرنے کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیلی میری پشت پر میرے کندھوں کے درمیان رکھی، پھر فرمایا: ”اپنی قوم کی امامت کراؤ اور جو لوگوں کا امام بنے وہ نماز میں تخفیف کرے، کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں، ان میں بیمار بھی ہوتے ہیں،ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں۔ اور ان میں ضرورت مند بھی ہوتے ہیں جب تم میں سے کوئی اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1050
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ (أَنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي) کے علماء نے مختلف مفہوم مراد لیے ہیں: 1۔ میں امام بن کر عجب اورتکبر میں مبتلا ہونے سے ڈرتا ہوں۔ 2۔ میں شرم وحیا اور اس کام کی ادائیگی میں کمزوری محسوس کرتا ہوں۔ 3۔ میں نماز میں وسوسہ میں مبتلا ہو جاتا ہوں، اور اس کی تائید میں عثمان ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ جس میں یہ آیا ہے، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شیطان میری نماز میں حرج ڈال دیتا ہے، مجھے قرآن پڑھتے بھلا دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برکت سے ان کی یہ خرابی دور ہو گئی۔ 2۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے نماز میں سب لوگوں کو شریک ہونا چاہیے اپنی کمزوری بیماری یا ضرورت کو جماعت سے پیچھے رہنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے اور امام کو بھی اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1050
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1051
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آخری وصیت اور تلقین یہ فرمائی تھی، ”جب لوگوں کی امامت کرو تو اس میں تخفیف کا خیال رکھنا (نماز ہلکی پڑھانا)۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1051]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: عَهِدَ إِلَيْهِ: (س) اس کو وصیت وتلقین کی۔