(حديث مرفوع) اخبرنا علي بن عبد الحميد، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: "لما نهينا ان نبتدئ النبي صلى الله عليه وسلم كان يعجبنا ان يقدم البدوي والاعرابي العاقل فيسال النبي صلى الله عليه وسلم، ونحن عنده فبينا نحن كذلك إذ جاء اعرابي، فجثا بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد، إن رسولك اتانا فزعم لنا انك تزعم ان الله ارسلك؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي رفع السماء وبسط الارض ونصب الجبال، آلله ارسلك؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا خمس صلوات في اليوم والليلة؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك، آلله امرك بهذا؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا صوم شهر في السنة؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك، آلله امرك بهذا؟، قال: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا في اموالنا الزكاة؟، فقال: النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك، آلله امرك بهذا؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا الحج إلى البيت من استطاع إليه سبيلا؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟، قال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فوالذي بعثك بالحق لا ادع منهن شيئا، ولا اجاوزهن، قال: ثم وثب الاعرابي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن صدق الاعرابي دخل الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا نُهِينَا أَنْ نَبْتَدِئَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَقْدُمَ الْبَدَوِيُّ وَالْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَجَثَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ؟، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا، وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ، قَالَ: ثُمَّ وَثَبَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام میں پہل کرنے سے منع کر دیا گیا تو ہم یہ پسند کرتے تھے کہ کوئی ہوشیار سمجھدار دیہاتی بدوی آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے اور ہم آپ کے پاس بیٹھے ہوں۔ اتفاق سے ایک بار ہم بیٹھے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اور عرض کیا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور ہم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے بالکل سچ کہا۔“ اس نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آسمان کو بلند فرمایا، زمین کو پھیلایا، پہاڑوں کو کھڑا کر دیا، کیا اس اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ فرماتے ہیں کہ دن رات میں ہمارے اوپر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا“۔ عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا، کیا اس اللہ نے اس کا آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اعرابی نے عرض کیا کہ آپ کے داعی نے ہمیں بتایا کہ آپ فرماتے ہیں ہمارے اوپر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ پھر عرض کیا: آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ (تعالیٰ) نے آپ کو اس کا حکم دیا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ دیہاتی نے عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ نے ہمارے مال میں زکاة فرض کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالکل سچ ہے۔“ عرض کیا: اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ فرمایا: ”ہاں۔“ اعرابی نے عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ نے فرمایا: جو استطاعت رکھے اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا۔“ عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کا حکم دیا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں ان باتوں میں سے کسی کو نہ چھوڑوں گا اور نہ ان سے تجاوز کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس اعرابی نے (اپنی بات کو) سچ کر دکھایا تو جنت میں داخل ہو گیا۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 668 سے 673) اعرابی کے ان تمام سوالات کا تعلق اصول و فرائضِ دین سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصولی طور پر صرف فرائض ہی ذکر فرمائے، اور نوافل چونکہ فرائض کے تابع ہیں اس لئے ان کے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا، اس سے سنن و نوافل کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کی روشنی میں اگر کوئی شخص صرف فرائض پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہو تو جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 676]» اس حدیث کی سند صحیح اور متفق علیہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [بخاري 63]، [مسلم 12]، [ابويعلی 3333]، [ابن حبان 154]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه