(حديث موقوف) اخبرنا سعيد بن عامر، عن همام، عن قتادة: ان زيد بن ثابت قال في اخت، وام، وزوج، وجد، قال: "جعلها من سبع وعشرين: للام ستة، وللزوج تسعة، وللجد ثمانية، وللاخت اربعة.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ: أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فِي أُخْتٍ، وَأُمٍّ، ٍّوَزَوْجٍ، وَجَدٍّ، قَالَ: "جَعَلَهَا مِنْ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ: لِلْأُمِّ سِتَّةٌ، وَلِلزَّوْجِ تِسْعَةٌ، وَلِلْجَدِّ ثَمَانِيَةٌ، وَلِلْأُخْتِ أَرْبَعَةٌ.
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بہن، ماں، شوہر اور دادا کی میراث 27 سے تقسیم کی اور ماں کو چھ، شوہر کو نو، دادا کو آ ٹھ اور بہن کو چار سہم دیئے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2963) یہ مسئلہ عدل کا ہے اور اکدریہ کے نام سے مشہور ہے، اور اس مسئلہ کو الگ طور سے اس لئے ذکر کیا جاتا ہے کہ اصولاً دادا کے ساتھ بہن صاحبِ فرض نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ ہوتی ہے، مگر اس مسئلہ میں اسے صاحبہ فرض قرار دے کر نصف ترکہ دیا گیا ہے، پھر دادا اور بہن دونوں کے حصے ملا کر مقاسمہ کر لی گئی، اس صورت میں بہن نصف کے بجائے چھٹے حصہ کی اور دادا تہائی حصہ کا وارث ہوا، برعکس اس کے جو (مقاسمہ سے پہلے) فرض کیا گیا تھا، اس طرح بہن کا حصہ مکدر ہو کر رہ گیا یعنی زیادہ ہونے کے باوجود کم ملا، اکدریہ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس حلِ مذکور نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مسلک مکدر کر دیا، بعض نے کہا یہ مسئلہ پوچھنے والی عورت قبیلہ اکدریہ سے تعلق رکھتی تھی۔ [منهاج المسلم، ص: 681-682]، واضح رہے کہ عدل ایک معروف طریقہ ہے جس کا مطلب ہے: اصحاب الفرائض کے حصص کا اصل مسئلہ سے بڑھ جانا۔ مذکور بالا مسئلہ میں اصل مسئلہ 6 سے بنے گا، نصف خاوند کے لئے، تہائی دو ماں کا، نصف (3) بہن کا، اور چھٹا حصہ (1) دادا کا، عدل کے بعد ترکہ چھ کے بجائے نو حصے ہوں گے، پھر دادا بہن سے مقاسمہ کا تقاضہ کرے گا، لہٰذا دادا کو بھائی تصور کر کے اس کا ایک حصہ اور بہن کے تین حصے ملا کر چار حصوں کو بہن اور دادا کے درمیان «للذكر مثل حظ الأنثيين» کے قاعدے کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔ . . . 6 . . . 9 . . . 27 خاوند . . . 3 . . . 3 . . . 9 ماں . . . 2 . . . 2 . . . 6 بہن . . . 2 . . . 3 . . . 4 دادا . . . 1 . . . 1 . . . 8
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى قتادة، [مكتبه الشامله نمبر: 2973]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11289]، [عبدالرزاق 19074]، [ابن منصور 65]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى قتادة