(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن إسرائيل، حدثنا ابو إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة فابى اهل مكة ان يدعوه ان يدخل مكة حتى قاضاهم على ان يقيم ثلاثة ايام، فلما كتبوا: هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: لانقر بهذا، لو نعلم انك رسول الله، ما منعناك شيئا، ولكن انت محمد بن عبد الله، فقال: "انا رسول الله، وانا محمد بن عبد الله"، فقال لعلي:"امح: محمد رسول الله"، فقال: لا والله لا امحوه ابدا. فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الكتاب وليس يحسن يكتب، فكتب مكان رسول الله هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله: ان لا يدخل مكة بسلاح إلا السيف في القراب، وان لا يخرج من اهلها احدا اراد ان يتبعه، ولا يمنع احدا من اصحابه اراد ان يقيم بها. فلما دخلها ومضى الاجل، اتوا عليا، فقالوا: قل لصاحبك فليخرج عنا فقد مضى الاجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: لأَنُقِرُّ بِهَذَا، لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا، وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: "أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ"، فَقَالَ لِعَلِيٍّ:"امْحُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ"، فَقَالَ: لا وَاللَّهِ لا أَمْحُوهُ أَبَدًا. فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولِ اللَّهِ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: أَنْ لَا يَدْخُلَ مَكَّةَ بِسِلَاحٍ إِلا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ، وَأَنْ لَا يُخْرِجَ مِنْ أَهْلِهَا أَحَدًا أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ، وَلا يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا. فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الأَجَلُ، أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ فَلْيَخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا لیکن مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا، آخر صلح اس پر ہوئی کہ آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تین روز قیام کریں گے، جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، لیکن مشرکین نے کہا: ہم تو اس کو نہیں مانتے، اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بالکل نہ روکیں گے، آپ صرف عبداللہ کے بیٹے محمد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”محمد رسول الله کا لفظ مٹا دو“، انہوں نے کہا: نہیں الله کی قسم میں اس کو نہیں مٹاؤں گا، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وہ دستاویز لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح لکھنا بھی نہ جانتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اللہ کی جگہ لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ تلوار کو میان میں اٹھائے بنا داخل نہ ہوں گے، اور مکے کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے، لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو وہ اسے نہ روکیں گے۔ جب اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور تین دن کی مدت پوری ہوگئی تو مشرکینِ مکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اپنے صاحب سے کہیے مدت پوری ہوگئی اور اب مکہ سے نکل جائیں ........... چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے ......۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2541 سے 2543) اس طویل حدیث سے متعدد مسائل معلوم ہوئے۔ ذوالقعدہ حج کے مہینوں میں سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مہینے میں عمرے کے لئے تشریف لے گئے۔ معلوم ہوا کہ حج کے مہینوں میں صرف عمرہ کرنا جائز ہے، نیز یہ کہ مصلحت کے پیشِ نظر کافروں سے صلح کرنا ثابت ہوا، اور اسلام نے صلح سے متعلق خاص ہدایات اس لئے دی ہیں کہ اسلام سراسر امن اور صلح کا علمبردار ہے، اسلام نے جنگ و جدال کو کبھی پسند نہیں کیا۔ قرآن پاک میں ہے: « ﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾[الأنفال: 61] »”اگر دشمن صلح کرنا چاہے تو آپ ضرور صلح کے لئے جھک جایئے۔ “ پھر یہ صلح حدیبیہ ظاہری طور پر مسلمانوں کے خلاف تھی اور مشرکین نے جو شرطیں رکھیں وہ بالکل نا مناسب تھیں، مگر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مصالح کے پیشِ نظر ان کو تسلیم فرما لیا، پس مصلحتاً دب کر بھی بعض مواقع پر فیصلہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما اسی لئے کبیدہ خاطر تھے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مٹا دینے کے لئے کہا تو فرطِ جذبات اور جوشِ ایمان میں ایسا کہا کہ میں نہیں مٹاؤں گا، یہ حکم عدولی نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود سے لکھنا بھی بطورِ معجزہ تھا ورنہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبیٔ اُمی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تعلق نہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم اولین و آخرین سے نوازا تھا، اور یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے جو پندرہ سو سال سے اعلان کر رہا ہے کہ اس جیسی ایک ہی آیت لے آؤ، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمی ہونا معجزہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی نہیں بلکہ عین حقیقت ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمی ہونے کا انکار کرے وہ غلطی پر ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: « ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ .....﴾[الأعراف: 157] » ترجمہ: ”یہ لوگ ایسے اُمی (بے پڑھے لکھے) رسول کی اتباع کرتے ہیں جن کی صفت وہ لوگ توریت و انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہیں .....“ اس آیت کے بعد دوسری آیت میں فرمایا: « ﴿فَآمِنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ .....﴾[الأعراف: 158] »”پس تم ایمان لاؤ الله تعالیٰ پر اور اس کے اُمی رسول پر .....“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2549]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2699]، [مسلم 1783]، [أبويعلی 1703]، [ابن حبان 4869]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه