(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، حدثنا شعيب، عن الزهري اخبرني عروة بن الزبير، عن ابي حميد الساعدي: انه اخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم استعمل عاملا على الصدقة فجاءه العامل حين فرغ من عمله، فقال: يا رسول الله، هذا الذي لكم، وهذا اهدي لي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"فهلا قعدت في بيت ابيك وامك، فنظرت ايهدى لك ام لا"، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم عشية بعد الصلاة على المنبر فتشهد فحمد الله واثنى عليه بما هو اهله، ثم قال:"اما بعد، فما بال العامل نستعمله فياتينا، فيقول: هذا من عملكم، وهذا اهدي لي؟ فهلا قعد في بيت ابيه وامه فينظر ايهدى له ام لا؟ والذي نفس محمد بيده، لا يغل احد منكم منها شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله على عنقه، إن كان بعيرا، جاء به له رغاء، وإن كانت بقرة، جاء بها لها خوار، وإن كانت شاة، جاء بها تيعر، فقد بلغت؟". قال ابو حميد: ثم رفع النبي صلى الله عليه وسلم يديه حتى إنا لننظر إلى عفرة إبطيه. قال ابو حميد: وقد سمع ذلك معي من رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن ثابت، فسلوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ: أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ عَامِلًا عَلَى الصَّدَقَةِ فَجَاءَهُ الْعَامِلُ حِينَ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الَّذِي لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَهَلا قَعَدْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأَمِّكَ، فَنَظَرْتَ أَيُهْدَى لَكَ أَمْ لا"، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً بَعْدَ الصَّلاةِ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ الْعَامِلِ نَسْتَعْمِلُهُ فَيَأْتِينَا، فَيَقُولُ: هَذَا مِنْ عَمَلِكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي؟ فَهَلا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَغُلُّ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا، جَاءَ بِهِ لَهُ رُغَاءٌ، وَإِنْ كَانَتْ بَقَرَةً، جَاءَ بِهَا لَهَا خُوَارٌ، وَإِنْ كَانَتْ شَاةً، جَاءَ بِهَا تَيْعِرُ، فَقَدْ بَلَّغْتُ؟". قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: ثُمَّ رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ حَتَّى إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى عُفْرَةِ إِبِطَيْهِ. قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: وَقَدْ سَمِعَ ذَلِكَ مَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَسَلُوهُ.
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عامل کو صدقہ وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی، وہ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے لئے ہے (یعنی بیت المال کی رقم ہے) اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا (مال ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اپنے باپ اور ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھے رہے، پھر دیکھتے تمہیں وہاں بھی ہدیہ ملتا ہے یا نہیں“، پھر شام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد منبر پر کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، جتنا ہو سکا الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”اما بعد (یعنی حمد و صلاۃ کے بعد) ایسے عامل کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم اسے عامل بناتے ہیں (جزیہ و ٹیکس یا صدقات کی وصولی کے لئے) پھر وہ ہمارے پاس آ کر کہتا ہے یہ تو آپ کا ٹیکس ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، پھر وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی بھی اس مال میں سے کچھ خیانت کرے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا، اگر اونٹ کی اس نے خیانت کی ہوگی تو اس حال میں لے کر آئے گا کہ اس کی آواز نکل رہی ہوگی، اگر گائے کی خیانت کی ہوگی تو اس حال میں اسے لے کر آئے گا کہ گائے کی آواز آرہی ہوگی، اگر بکری کی خیانت کی ہوگی تو اس حال میں آئے گا کہ بکری کی آواز آرہی ہوگی، بس میں نے تم کو پہنچا دیا۔“ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھنے لگے۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے (مزید) کہا: میرے ساتھ یہ حدیث سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، ان سے پوچھ لو۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2528) یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر ذکر کی ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی [كتاب الزكاة حديث 1707] میں اسے ذکر کیا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن لتبیہ رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی کو زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ جب زکاۃ کا مال لے کر آئے تو بعض چیزوں کی نسبت کہنے لگے کہ یہ مجھ کو بطورِ تحفہ ملی ہیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد نمازِ عشاء یہ خطبہ دیا اور بتایا کہ اس طرح سرکاری سفر و عمل میں تم کو ذاتی تحائف لینے کا حق نہیں ہے، جو بھی ملا ہے سب بیت المال میں داخل کرنا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے کارندوں اور صدقہ و جزیہ وصول کرنے والوں سے حاکم حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے، کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔ اس احتساب اور سب کچھ بیت المال میں جمع کر دینے سے رشوت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ کوئی افسر جب یہ سمجھ لے گا کہ اس کے ہدیہ و تحفہ میں اس کا کچھ حق نہیں تو وہ ایسا ہدیہ و تحفہ قبول ہی نہ کرے گا، یا پھر اپنے آفیسر کے ذریعہ بیت المال میں جمع کرا دے گا۔ اس حدیث سے وقتِ ضرورت خطبہ دینا اور لوگوں کے سامنے احکام و حقیقت بیان کرنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ کسی کا نام لے کر اٹیک نہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما بال العامل، اور ان کا نام نہیں لیا، اس میں قسم کھانے کا بھی جواز ملتا ہے، نیز یہ کہ جو آدمی بھی خیانت کرے گا اس کو لے کر قیامت کے دن آئے گا، نیز اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھانے کے ذکر میں راوی کا مقصود یہ ہے کہ انہوں نے بذاتِ خود یہ حدیث سنی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے بچشمِ خود دیکھا تھا، مزید تأکید کے لئے سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے ساتھ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی یہ حدیث سنی تھی۔ والله اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2535]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6636]، [مسلم 1832]، [أبوداؤد 2946]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه