(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، وعفان، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن يعلى بن عطاء، عن عبد الله بن يسار ابي همام، عن ابي عبد الرحمن الفهري، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة حنين، فكنا في يوم قائظ شديد الحر، فنزلنا تحت ظلال الشجر،...... فذكر القصة، ثم اخذ كفا من تراب، قال: فحدثني الذي هو اقرب إليه مني انه ضرب به وجوههم، وقال: "شاهت الوجوه"فهزم الله المشركين. قال يعلى: فحدثني ابناؤهم ان اباءهم. قالوا: فما بقي منا احد إلا امتلات عيناه وفمه ترابا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ أَبِي هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ حُنَيْنٍ، فَكُنَّا فِي يَوْمٍ قَائِظٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلَالِ الشَّجَرِ،...... فَذَكَرَ الْقِصَّةَ، ثُمَّ أَخَذَ كَفًّا مِنْ تُرَابٍ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي الَّذِي هُوَ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنِّي أَنَّهُ ضَرَبَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، وَقَالَ: "شَاهَتِ الْوُجُوهُ"فَهَزَمَ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ. قَالَ يَعْلَى: فَحَدَّثَنِي أَبْنَاؤُهُمْ أَنَّ أَبَاءَهُمْ. قَالُوا: فَمَا بَقِيَ مِنَّا أَحَدٌ إِلا امْتَلَأَتْ عَيْنَاهُ وَفَمُهُ تُرَابًا.
سیدنا ابوعبدالرحمٰن الفہری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سخت گرمی کے دن جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا اور ہم نے درختوں کے سایے میں پڑاؤ ڈالا۔ اس کے بعد پورا قصہ بیان کیا اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی میں مٹی بھری اور مجھے اس شخص نے خبر دی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب تھا کہ اس مٹی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی طرف پھینکا اور فرمایا: ”ان کے منہ خراب ہوں“، پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی۔ یعلی نے کہا: ان کے بیٹوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے آباء نے کہا کہ ہم میں سے اس وقت کوئی ایسا نہ بچا کہ اس کی آنکھیں اور منہ مٹی سے نہ بھر گئے ہوں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2488) جنگِ حنین ہوازن و ثقيف کے قبائل سے فتح مکہ کے بعد 8ھ میں وقوع پذیر ہوئی، جس میں مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی، اور کافروں کی تعداد 4 ہزار کے قریب تھی، مسلمانوں کو اپنی طاقت پر بھروسہ ہو گیا اور سوچنے لگے کہ ہماری تھوڑی سی تعداد بڑی سے بڑی تعداد پر غالب آ جاتی ہے تو اس بڑے لشکر کو کون شکست دے سکے گا، لیکن فتح و نصرت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ اور آزمائش ڈالدی، شروع میں مسلمان پسپا ہو گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور کہا: «شَاهَتِ الْوُجُوهُ» یعنی بد دعا کی، الله تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور دشمن کو ہزیمت و شکست ہوئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2496]» اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 286/5]، [ابن أبى شيبه 18844]، [أبويعلی 6708]، [ابن حبان 7049]، [الحميدي 464]