(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يزيد الحزامي، حدثنا يونس بن بكير، حدثني ابن إسحاق، حدثني الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن سعد بن ابي وقاص، قال: لما كان من امر عثمان بن مظعون الذي كان من ترك النساء، بعث إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"يا عثمان إني لم اومر بالرهبانية ارغبت عن سنتي؟"، قال: لا، يا رسول الله، قال: "إن من سنتي ان اصلي، وانام، واصوم، واطعم، وانكح , واطلق، فمن رغب عن سنتي، فليس مني يا عثمان، إن لاهلك عليك حقا، ولنفسك عليك حقا". قال سعد: فوالله لقد كان اجمع رجال من المسلمين على ان رسول الله صلى الله عليه وسلم إن هو اقر عثمان على ما هو عليه ان نختصي فنتبتل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ الَّذِي كَانَ مِنْ تَرْكِ النِّسَاءِ، بَعَثَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"يَا عُثْمَانُ إِنِّي لَمْ أُومَرْ بِالرَّهْبَانِيَّةِ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي؟"، قَالَ: لَا، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "إِنَّ مِنْ سُنَّتِي أَنْ أُصَلِّي، وَأَنَام، وَأَصُومَ، وَأَطْعَمَ، وَأَنْكِحَ , وَأُطَلِّقَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي، فَلَيْسَ مِنِّي يَا عُثْمَانُ، إِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا". قَالَ سَعْدٌ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ أَجْمَعَ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ هُوَ أَقَرَّ عُثْمَانَ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ أَنْ نَخْتَصِيَ فَنَتَبَتَّلَ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا معاملہ پیش آیا جنہوں نے عورتوں سے ترک تعلق کر لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا: ”اے عثمان! مجھے رہبانیت کا حکم نہیں دیا گیا ہے، کیا تم میری سنت سے بیزار ہو گئے؟“ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا نہیں ہے، فرمایا: ”پھر میری سنت تو یہ ہے کہ (رات کو) نماز پڑھتا ہوں تو سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں تو (افطار بھی کرتا رہتا ہوں) کھاتا بھی ہوں، نکاح بھی کرتا ہوں اور طلاق بھی دیتا ہوں۔ پس جس نے میرے طریقے سے بےرغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی صحابہ نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ اگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس حالت پر برقرار رہنے کی اجازت دے دی تو ہم سب اپنے آپ کو خصی بنا لیتے اور (عورت سے) ترک تعلق کر لیتے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2204 سے 2206) اس حدیث سے نکاح کی اہمیت و ضرورت معلوم ہوئی، اور جو اس سنّت پر عمل نہیں کرتا اور بطورِ اہانت سنّت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ امّتِ محمدیہ سے خارج ہے۔ یہ جملہ «فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ.» جوامع الکلم میں سے ہے اور بدعات کے قلع قمع کے لئے کافی ہے، اور اتباعِ سنّت کے لئے دلیل و برہان ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا آخر میں بیان بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ہر کام میں سنّتِ رسول مقدم، اتباعِ رسول لازم ہے۔ صحابۂ کرام مستعد تھے کہ اگر عثمان بن مظعون کو خصی ہونے اور عورتوں سے ترکِ تعلق کی اجازت ملی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے، لیکن جب قولِ پیغمبر سامنے آیا تو سب نے اس کام سے توبہ کر لی اور اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے آدمی کا خصی کرنا حرام لکھا ہے خواہ بچپن میں ہو یا جوانی میں۔ امام بغوی رحمہ اللہ نے کہا: ایسے ہی جو جانور حرام ہیں ان کا خصی کرنا بھی حرام ہے، اور جو جانور حلال ہیں ان کا بچپن میں خصی کرنا جائز ہے اور بعد میں حرام ہے۔ مذکورہ بالا حدیث سے حقیقتِ اسلام پر روشنی پڑتی ہے جس میں رہبانیت کی بیخ کنی کی گئی ہے، اور جس سے ادیانِ عالم کے مقابلہ میں اسلام کا دینِ فطرت ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ اسلام دنیا و دین ہر دو کی تعمیر چاہتا ہے، وہ غلط رہبانیت اور غلط طور پر ترکِ دنیا کا قائل نہیں ہے، ایک عالمگیر آخری دین کے لئے ان ہی اوصاف کا ہونا لابدی ہے اس لئے اسے ناسخِ ادیان قرار دے کر بنی نوع انسان کا آخری دین قرار دیا: « ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللّٰهِ الْإِسْلَامُ﴾[آل عمران: 19] » ۔ اس حدیث سے پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انسان ہونا اور انسانوں کی طرح زندگی بسر کرنا بھی ثابت ہوا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، عبادت، معاملات، نکاح و طلاق سارے امور کی بجا آوری یہی ایک بندے کے اوصافِ جلیلہ ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ سارے انسانوں بلکہ تمام انبیاء و رسل سے بھی اعلیٰ و ارفع ہے۔ آیتِ شریفہ: « ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ﴾[الكهف: 110] » بھی اسی طرف دلالت اور رہنمائی کرتی ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2215]» اس حدیث کی تخریج (2204) پرگذر چکی ہے اور یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5063]، [مسلم 1401]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه