اس سند سے بھی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے حسب سابق مروی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1813 سے 1816) پہلی حدیث سے قیام اللیل یا نمازِ تراویح کی فضیلت ثابت ہوئی اور لیلۃ القدر میں جاگنا، قیام و عبادت کرنا ثابت ہوا، اور اس کا اتنا ثواب ہے کہ اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، قیام، تراویح، تہجد سب ایک ہی چیز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین رات قیام فرمایا اور نمازِ تراویح پڑھی، بقیہ دنوں میں باجماعت تراویح اس لئے نہیں پڑھیں کہ خوف تھا امّت پر فرض نہ کر دی جائیں «(فِدَاهُ أَبِيْ وَأُمِّيْ)» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ تراویح یا تہجد نہیں پڑھی، ایک روایت میں 13 رکعت ہے اس لئے سنّت یہی ہے، 20 رکعت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ مبارک میں پڑھی گئیں اس لئے بیس رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب رات کی نفلی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَيٰ مَثْنَيٰ»”رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکعات کی تحدید نہیں فرمائی اسی لئے حرمین شریفین میں 20، 36 اور چالیس رکعت تک تراویح پڑھی گئی ہیں لیکن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل 11 یا 13 رکعت تک محدود رہا ہے اس لئے یہ ہی سنّت اور بہتر و افضل ہے۔ واللہ اعلم۔