حدثنا احمد بن صالح، قال: حدثنا عنبسة بن خالد، قال: حدثنا يونس، عن ابن شهاب قال: اخبرني يحيى بن عروة بن الزبير، انه سمع عروة بن الزبير يقول: قالت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: سال ناس النبي صلى الله عليه وسلم عن الكهان، فقال لهم: ”ليسوا بشيء“، فقالوا: يا رسول الله، فإنهم يحدثون بالشيء يكون حقا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”تلك الكلمة من الحق يخطفها الشيطان، فيقرقره باذني وليه كقرقرة الدجاجة، فيخلطون فيها باكثر من مئة كذبة.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأَلَ نَاسٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ، فَقَالَ لَهُمْ: ”لَيْسُوا بِشَيْءٍ“، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ بِالشَّيْءِ يَكُونُ حَقًّا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الشَّيْطَانُ، فَيُقَرْقِرُهُ بِأُذُنَيْ وَلِيِّهِ كَقَرْقَرَةِ الدَّجَاجَةِ، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا بِأَكْثَرَ مِنْ مِئَةِ كِذْبَةٍ.“
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صحیح نہیں ہیں، اور ان کی کوئی حقیقت نہیں۔“ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کوئی چیز بیان کرتے ہیں جو بسا اوقات صحیح ثابت ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صحیح بات وہ کلمہ ہوتا ہے جسے شیطان (فرشتوں کی باہمی گفتگو سے) اچک لیتا ہے، اور اپنے دوستوں کے کانوں میں اس طرح ڈالتا ہے جیسے مرغی قر قر کرتی ہے، پھر وہ کاہن اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا لیتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التوحيد: 7561، 3217 و مسلم: 2228 و الترمذي: 3248»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 882
فوائد ومسائل: (۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں کے بارے میں لَیْسُوا بِشَیْیئٍ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ حق پر نہیں ہیں اور نہ ان کا طریقہ ہی ٹھیک ہے۔ اسی کو امام بخاری نے باب میں بیان کیا ہے۔ (۲) آپ نے کاہنوں کی صحیح ثابت ہونے والی بات کی حقیقت بھی آشکارا فرمائی کہ وہ درحقیقت فرشتوں سے سنی ہوئی بات ہوتی ہے جسے شیطان اچک کر ان کے کانوں میں ڈالتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر اپنی دکانداری چمکاتے ہیں اور جاہل لوگ اس کی ایک صحیح بات پر توجہ دیتے ہیں اور اس کے ننانوے جھوٹ فراموش کر دیتے ہیں۔ (۳) کاہن کے پاس جانا کبیرہ گناہ ہے۔ اگر کوئی شخص کاہن کے پاس جائے اور اس کی تصدیق بھی کرے کہ اس کا اندازہ برحق ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ دین کا انکاری ہے۔ اس لیے چند سو یا ہزار کی چیز کی خاطر اپنا ایمان ہرگز برباد نہیں کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 882