حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا محمد بن ابي فديك، عن محمد بن هلال، انه راى حجر ازواج النبي صلى الله عليه وسلم من جريد مستورة بمسوح الشعر، فسالته عن بيت عائشة، فقال: كان بابه من وجهة الشام، فقلت: مصراعا كان او مصراعين؟ قال: كان بابا واحدا، قلت: من اي شيء كان؟ قال: من عرعر او ساج.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ هِلاَلٍ، أَنَّهُ رَأَى حُجَرَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَرِيدٍ مَسْتُورَةً بِمُسُوحِ الشَّعْرِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ بَيْتِ عَائِشَةَ، فَقَالَ: كَانَ بَابُهُ مِنْ وِجْهَةِ الشَّامِ، فَقُلْتُ: مِصْرَاعًا كَانَ أَوْ مِصْرَاعَيْنِ؟ قَالَ: كَانَ بَابًا وَاحِدًا، قُلْتُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ كَانَ؟ قَالَ: مِنْ عَرْعَرٍ أَوْ سَاجٍ.
محمد بن ہلال رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے حجروں کو دیکھا جو کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے، اور انہیں بالوں سے بنائے ٹاٹوں سے ڈھانکا گیا تھا۔ میں نے ان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس کا دروازہ شام کی طرف تھا۔ میں نے کہا: اس کا ایک کواڑ تھا یا دو کواڑ؟ انہوں نے کہا: ایک ہی دروازہ تھا۔ میں نے پوچھا: دروازہ کس چیز کا تھا؟ انہوں نے کہا: سرو کے درخت کا یا ساگوان کی لکڑی کا تھا۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 776
فوائد ومسائل: اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے لیے گھر بنانا جائز ہے، تاہم اس میں سادگی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث ۴۵۱ کے فوائد۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 776