حدثنا عمرو بن خالد، قال: حدثنا زهير، قال: حدثنا عبد الله بن عثمان قال: اخبرني إسماعيل بن عبيد، عن ابيه عبيد، عن رفاعة بن رافع، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لعمر رضي الله عنه: ”اجمع لي قومك“، فجمعهم، فلما حضروا باب النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه عمر فقال: قد جمعت لك قومي، فسمع ذلك الانصار فقالوا: قد نزل في قريش الوحي، فجاء المستمع والناظر ما يقال لهم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فقام بين اظهرهم فقال: ”هل فيكم من غيركم؟“ قالوا: نعم، فينا حليفنا وابن اختنا وموالينا، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”حليفنا منا، وابن اختنا منا، وموالينا منا، وانتم تسمعون: إن اوليائي منكم المتقون، فإن كنتم اولئك فذاك، وإلا فانظروا، لا ياتي الناس بالاعمال يوم القيامة، وتاتون بالاثقال، فيعرض عنكم“، ثم نادى فقال: ”يا ايها الناس“، ورفع يديه يضعهما على رءوس قريش، ”ايها الناس، إن قريشا اهل امانة، من بغى بهم، قال زهير: اظنه قال: العواثر، كبه الله لمنخريه“، يقول ذلك ثلاث مرات.حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ عُبَيْدٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ”اجْمَعْ لِي قَوْمَكَ“، فَجَمَعَهُمْ، فَلَمَّا حَضَرُوا بَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ فَقَالَ: قَدْ جَمَعْتُ لَكَ قَوْمِي، فَسَمِعَ ذَلِكَ الأَنْصَارُ فَقَالُوا: قَدْ نَزَلَ فِي قُرَيْشٍ الْوَحْيُ، فَجَاءَ الْمُسْتَمِعُ وَالنَّاظِرُ مَا يُقَالُ لَهُمْ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ فَقَالَ: ”هَلْ فِيكُمْ مِنْ غَيْرِكُمْ؟“ قَالُوا: نَعَمْ، فِينَا حَلِيفُنَا وَابْنُ أُخْتِنَا وَمَوَالِينَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”حَلِيفُنَا مِنَّا، وَابْنُ أُخْتِنَا مِنَّا، وَمَوَالِينَا مِنَّا، وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ: إِنَّ أَوْلِيَائِي مِنْكُمُ الْمُتَّقُونَ، فَإِنْ كُنْتُمْ أُولَئِكَ فَذَاكَ، وَإِلاَّ فَانْظُرُوا، لاَ يَأْتِي النَّاسُ بِالأَعْمَالِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَتَأْتُونَ بِالأَثْقَالِ، فَيُعْرَضَ عَنْكُمْ“، ثُمَّ نَادَى فَقَالَ: ”يَا أَيُّهَا النَّاسُ“، وَرَفَعَ يَدَيْهِ يَضَعَهُمَا عَلَى رُءُوسِ قُرَيْشٍ، ”أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ قُرَيْشًا أَهْلُ أَمَانَةٍ، مَنْ بَغَى بِهِمْ، قَالَ زُهَيْرٌ: أَظُنُّهُ قَالَ: الْعَوَاثِرَ، كَبَّهُ اللَّهُ لِمِنْخِرَيْهِ“، يَقُولُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.
سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا: ”اپنی قوم (قریش) کو جمع کرو۔“ تو انہوں نے انہیں جمع کیا۔ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے باہر جمع ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: میں نے اپنی قوم کو آپ کے پاس جمع کر دیا ہے۔ اس (اجتماع) کی خبر انصار کو ہوئی تو انہوں نے کہا: لگتا ہے قریش کے بارے میں کوئی (خصوصی) وحی نازل ہوئی ہے، تو ان میں سے بھی سننے اور دیکھنے والے جمع ہو گئے کہ انہیں کیا کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) باہر تشریف لائے اور ان کے سامنے کھڑے ہو گئے، پھر فرمایا: ”کیا تم میں قریش کے علاوہ بھی کوئی ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں! ہمارے اندر ہمارے حلیف، ہمارے بھانجے اور موالی (آزاد کردہ) بھی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے حلیف بھی ہم میں سے ہیں، ہمارے بھانجے بھی ہم میں سے ہیں، اور آزاد کردہ بھی ہمی سے ہیں۔ اور تم سنو! بے شک تم میں سے میرے دوست وہ ہیں جو متقی ہیں، لہٰذا اگر تم متقی ہو تو بہت خوب ورنہ دیکھ لو (ایسا نہ ہو کہ) قیامت کے روز لوگ اپنے اپنے اعمال لے کر حاضر ہوں اور تم (گناہوں کا) بوجھ لے کر حاضر ہو تو تم سے روگردانی اختیار کر لی جائے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو!“ ...... اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ قریش کے سروں پر رکھے۔ ”اے لوگو! بے شک قریش اہل امانت ہیں، جس نے ان پر زیادتی کی اللہ تعالیٰ اسے ناک کے بل اوندھے منہ (جہنم میں) گرا دے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ ارشاد فرمایا۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 18993 و معمر فى الجامع: 19897 و ابن أبى شيبه: 26484 و الطبراني فى الكبير: 45/5 و الحاكم: 6952 - الصحيحة: 1688، الضعيفة: 1716»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 75
فوائد ومسائل: (۱)مولی کی جمع موالی ہے اس سے مراد آزاد کردہ غلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ آزاد کردہ اپنی نسبت ان لوگوں کی طرف کرسکتا ہے جنہوں نے اسے آزاد کیا۔ اس میں اس بات کی بھی ترغیب ہے کہ آزاد کردہ کے ساتھ بھی دیگر رشتہ داروں کی طرح حسن سلوک کرنا چاہیے۔ اس سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مذکورہ بالا اثر کے ضعیف ہونے کا بھی پتا چلتا ہے۔ (۲) اس روایت میں کسی قبیلے کے حلیف کو بھی اسی قبیلے کا فرد قرار دیا گیا ہے۔ حلیف سے مراد وہ ہے جس کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ ہو کہ وہ ہر معاملے میں ایک دوسرے کی حمایت کریں گے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے کی جائز ناجائز مدد و نصرت کا معاہدہ کرلیتے تھے تاہم اسلام میں صرف امور خیر، حق اور درست بات میں ایک دوسرے کی مدد و نصرت کا معاہدہ جائز ہے۔ (۳) زمانہ جاہلیت بلکہ آج کے دور میں بھی بھانجوں حتی کہ نواسوں کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ خاندانی لحاظ سے ہم میں سے نہیں ہیں۔ اسلام نے اس ذہنیت کی تردید فرمائی اور یہ تعلیم دی کہ بھانجے بھی قریب ترین عزیزوں میں سے ہیں اور ان کا شمار بھی انسان کے خاندان میں ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنی چاہیے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ (۴) اس میں قریش کی فضیلت کے علاوہ اس امر پر بھی تنبیہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محض رشتہ داری باعث نجات نہیں ہے بلکہ اصل چیز اعمال صالحہ اور تقویٰ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی دوست بھی متقی ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی۔ یہ وضاحت آپ نے اس لیے فرمائی کہ کوئی شخص محض رشتہ داری پر تکیہ کرتے ہوئے اعمال ترک نہ کرے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو خانوادۂ رسول سے ہونا باور کراتے ہیں اور اعمال صالحہ کے قریب بھی نہیں جاتے بلکہ اس کے برعکس ہر برائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ محض سید کہلوانے سے فضیلت حاصل نہیں ہوتی جب تک اعمال اچھے نہ ہوں۔ (۵) اس حدیث میں اشارتاً یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے مستحق قریش ہی ہیں جو ان سے منازعت کرے گا وہ رسوا ہوگا۔ یہی بات سقیفہ بنی ساعدہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انصار کو سمجھائی جب انہوں نے خلافت میں شراکت کی خواہش ظاہر کی۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 75