حدثنا ابو حفص بن علي، قال: حدثنا ابو عاصم، قال: حدثنا عمرو بن وهب الطائفي، قال: حدثنا غطيف بن ابي سفيان، ان نافع بن عاصم اخبره، انه سمع عبد الله بن عمرو قال لابن اخ له خرج من الوهط: ايعمل عمالك؟ قال: لا ادري، قال: اما لو كنت ثقفيا لعلمت ما يعمل عمالك، ثم التفت إلينا فقال: إن الرجل إذا عمل مع عماله في داره، وقال ابو عاصم مرة: في ماله، كان عاملا من عمال الله عز وجل.حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصِ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَهْبٍ الطَّائِفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُطَيْفُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَاصِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ لِابْنِ أَخٍ لَهُ خَرَجَ مِنَ الْوَهْطِ: أَيَعْمَلُ عُمَّالُكَ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي، قَالَ: أَمَا لَوْ كُنْتَ ثَقَفِيًّا لَعَلِمْتَ مَا يَعْمَلُ عُمَّالُكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا عَمِلَ مَعَ عُمَّالِهِ فِي دَارِهِ، وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ مَرَّةً: فِي مَالِهِ، كَانَ عَامِلاً مِنْ عُمَّالِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ.
نافع بن عاصم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا کہ انہوں نے اپنے بھتیجے کو کہا جبکہ وہ (طائف میں واقع) اپنے باغ سے نکل رہے تھے: کیا تیرے مزدور کام کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے علم نہیں۔ انہوں نے کہا: اگر تم ثقفی ہوتے تو تم جانتے ہوتے کہ تمہارے مزدور کیا کام کر رہے ہیں، یا تم اپنے مزدوروں کے ساتھ کام کرتے۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: آدمی جب اپنے گھر یا مال میں اپنے مزدوروں کے ساتھ کام کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عمال میں سے ایک مزدور شمار ہوتا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 448
فوائد ومسائل: (۱)طائف کے علاقے میں سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا انگوروں کا ایک باغ تھا جسے انہوں نے اپنی اولاد میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما شاید اسی باغ میں گئے اور اپنے بھتیجے سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ (۲) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ مزدوروں کا ہاتھ بٹانا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا تواضع کی علامت ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور یہ انسان کے لیے اجر و ثواب کا باعث بھی ہے۔ (۳) بنو ثقیف قبیلے کے لوگ زراعت پیشہ تھے اس لیے بتایا کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ مزدور کیا کر رہے ہیں اور وہ خود بھی ان کے ساتھ ہاتھ بٹاتے ہیں اور یہ اچھی خوبی ہے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ گھر کے کام کاج سے اگر نیت اللہ کی رضا کے حصول کی ہو تو یہ بھی باعث اجر ہے اور ضائع نہیں جاتا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 448