حدثنا موسى، قال: حدثنا عبد العزيز، قال: حدثنا حصين، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن السلمي قال: سمعت عليا رضي الله عنه يقول: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم والزبير بن العوام، وكلانا فارس، فقال: ”انطلقوا حتى تبلغوا روضة كذا وكذا، وبها امراة معها كتاب من حاطب إلى المشركين، فاتوني بها“، فوافيناها تسير على بعير لها حيث وصف لنا النبي صلى الله عليه وسلم، فقلنا: الكتاب الذي معك؟ قالت: ما معي كتاب، فبحثناها وبعيرها، فقال صاحبي: ما ارى، فقلت: ما كذب النبي صلى الله عليه وسلم، والذي نفسي بيده لاجردنك او لتخرجنه، فاهوت بيدها إلى حجزتها وعليها إزار صوف، فاخرجت، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: خان الله ورسوله والمؤمنين، دعني اضرب عنقه، وقال: ”ما حملك؟“ فقال: ما بي إلا ان اكون مؤمنا بالله، واردت ان يكون لي عند القوم يد، قال: ”صدق يا عمر، او ليس قد شهد بدرا، لعل الله اطلع إليهم فقال: اعملوا ما شئتم فقد وجبت لكم الجنة“، فدمعت عينا عمر وقال: الله ورسوله اعلم.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَكِلاَنَا فَارِسٌ، فَقَالَ: ”انْطَلِقُوا حَتَّى تَبْلُغُوا رَوْضَةَ كَذَا وَكَذَا، وَبِهَا امْرَأَةٌ مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبٍ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَأْتُونِي بِهَا“، فَوَافَيْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا حَيْثُ وَصَفَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَبَحَثْنَاهَا وَبَعِيرَهَا، فَقَالَ صَاحِبِي: مَا أَرَى، فَقُلْتُ: مَا كَذَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأُجَرِّدَنَّكِ أَوْ لَتُخْرِجِنَّهُ، فَأَهْوَتْ بِيَدِهَا إِلَى حُجْزَتِهَا وَعَلَيْهَا إِزَارٌ صُوفٌ، فَأَخْرَجَتْ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، وَقَالَ: ”مَا حَمَلَكَ؟“ فَقَالَ: مَا بِي إِلاَّ أَنْ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ، وَأَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ، قَالَ: ”صَدَقَ يَا عُمَرُ، أَوَ لَيْسَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ“، فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ہم دونوں گھڑ سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چلتے رہو یہاں تک کہ تم فلاں فلاں جگہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا مشرکین کے نام خط ہے۔ اسے میرے پاس لاؤ۔“ ہم نے اسے اس حال میں جا پکڑا کہ وہ اپنے اسی طرح کے اونٹ پر سوار تھی جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا۔ ہم نے کہا: تیرے پاس جو خط ہے وہ نکالو۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کی اور اس کے اونٹ کی تلاشی لی (تو کچھ نہ ملا)، میرے ساتھی نے کہا: میرا خیال ہے اس کے پاس نہیں ہے۔ میں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ نہیں بولا۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، خط نکالو ورنہ میں تجھے ننگا کر دوں گا۔ اس نے اپنے ازار باندھنے کی جگہ (نیفہ) کی طرف ہاتھ بڑھایا اور خط نکال دیا۔ اس پر اون کا تہبند تھا۔ چنانچہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حاطب!) تم نے ایسا کیوں کیا؟“ تب انہوں (سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ) نے کہا: میرے دل میں اللہ تعالیٰ پر ایمان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میرا صرف یہ مقصد تھا کہ میرا ان لوگوں (مشرکین) پر احسان ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عمر! اس نے سچ کہا ہے۔ کیا یہ بدر میں شریک نہیں تھا؟ اللہ تعالیٰ کو سب بدر والوں کا حال معلوم ہے، اس لیے ان کے بارے میں فرمایا: تم جو چاہو عمل کرو یقیناً تمہارے لیے جنت واجب ہو گئی ہے۔“(یہ سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد والسير: 3007، 3081 و مسلم: 2494 و أبوداؤد: 2651 و الترمذي: 3305 و النسائي فى الكبرىٰ: 11521»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 438
فوائد ومسائل: (۱)بعض روایات میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یہی الفاظ امام بخاری کا استدلال ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس کا عمل دیکھ اپنی سوچ کے مطابق منافق کہتا ہے تو وہ قابل گرفت نہیں ہے، تاہم اس کی اصلاح کی جائے گی۔ (۲) حضرت حاطب رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ وہ بدر میں شریک ہوئے اور مہاجر بھی تھے۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والوں کے عزیز و اقارب وہاں موجود تھے جو ان کے بیوی بچوں کا دفاع کرتے تھے لیکن حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا قبیلہ وہاں نہیں تھا۔ انہوں نے سوچا کہ مکہ والوں پر کوئی احسان کر دوں تاکہ وہ میرے بچوں کا خیال رکھیں۔ رہا مسئلہ جنگ کا تو اللہ تعالیٰ ہر صورت اپنے رسول کو غالب کرے گا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ جاسوس وغیرہ سے راز اگلوانے کے لیے سختی کی جاسکتی ہے اور سیکورٹی تحفظات کے پیش نظر جامہ تلاشی لی جاسکتی ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 438