حدثنا إسماعيل بن ابي اويس قال: حدثني اخي، عن سليمان بن بلال، عن إبراهيم بن ابي اسيد، عن جده، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لا تدخلوا الجنة حتى تسلموا، ولا تسلموا حتى تحابوا، وافشوا السلام تحابوا، وإياكم والبغضة، فإنها هي الحالقة، لا اقول لكم: تحلق الشعر، ولكن تحلق الدين.“ حدثنا محمد بن عبيد، قال: حدثنا انس بن عياض، عن إبراهيم بن ابي اسيد، مثله.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُسْلِمُوا، وَلاَ تُسْلِمُوا حَتَّى تَحَابُّوا، وَأَفْشُوا السَّلاَمَ تَحَابُّوا، وَإِيَّاكُمْ وَالْبُغْضَةَ، فَإِنَّهَا هِيَ الْحَالِقَةُ، لاَ أَقُولُ لَكُمْ: تَحْلِقُ الشَّعْرَ، وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ.“ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ، مِثْلَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتے جب تک اسلام نہ لاؤ، اور تم مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ اور سلام کو پھیلاؤ، تم آپس میں محبت کرو گے۔ اور بغض و عناد سے بچو کیونکہ یہ مونڈنے والی ہے۔ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ بالوں کو مونڈنے والی ہے بلکہ یہ دین کو مونڈنے والی ہے۔“ ابراہیم بن اسید سے ایک دوسری سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره: أخرجه الترمذي، الاستئذان: 2688 و مسلم، الايمان، باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون: 154 و أحمد: 1430 و الطيالسي: 190»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 260
فوائد ومسائل: (۱)آپس میں محبت و الفت سے رہنا دین اسلام میں پسندیدہ بلکہ مطلوب ہے یہ دین اسلام کا ایک سنہری باب ہے کہ اس کے ماننے والے ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں اور ان کے دل بھی باہم ملے ہوئے ہیں۔ اس الفت اور محبت کو مزید بڑھانے کا ایک ذریعہ سلام کو عام کرنا ہے۔ (۲) جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان مسلمان اور مومن ہو۔ کافروں پر جنت حرام ہے اور وہ دائمی جہنمی ہیں۔ رہے ان کے اچھے اعمال تو اس کا صلہ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انہیں دنیا ہی میں دے دے گا۔ اور اگر چاہے گا تو کسی کے عذاب میں تخفیف کر دے گا جیسا کہ ابو طالب کے ساتھ ہو گا۔ (صحیح مسلم، ح:۵۱۵)اور مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں سے محبت رکھے اور کافروں سے بغض۔ یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جسے شرعی اصطلاح میں الولاء والبراء کہا جاتا ہے۔ اس کے بغیر نجات مشکوک ہے اس لیے اللہ کی رضا کے لیے باہم محبت و شفقت نہایت ضروری ہے اور سلام کے ذریعے محبت پیدا ہوتی ہے۔ (۳) بغض و کینہ ایسا خطرناک مرض ہے جو چپکے سے انسان میں گھس کر اس کے دین کو برباد کر دیتا ہے اور انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسد و بغض کو پہلی امتوں کی بیماری قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی رو سے باہمی حسد و بغض سے انسان کے تمام اعمال بھی برباد ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں قتل و غارت اسی حسد و بغض کا شاخسانہ ہے حتی کہ تاریخ انسانی کا پہلا قتل بھی اسی وجہ سے ہوا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 260