حدثنا موسى، قال: حدثنا وهيب، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”مر رجل مسلم بشوك في الطريق، فقال: لاميطن هذا الشوك، لا يضر رجلا مسلما، فغفر له.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَرَّ رَجُلٌ مُسْلِمٌ بِشَوْكٍ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ: لَأُمِيطَنَّ هَذَا الشَّوْكَ، لاَ يَضُرُّ رَجُلاً مُسْلِمًا، فَغُفِرَ لَهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی راستے میں پڑے ایک کانٹے کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں یہ کانٹا ضرور راستے سے ہٹاؤں گا تاکہ یہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ دے، تو اسے (اس عمل کی وجہ سے) معاف کر دیا گیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأذان، باب فضل التهجير إلى الظهر: 652 و مسلم: 1914 و أبوداؤد: 5245 و الترمذي: 1958 و ابن ماجة: 3682»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 229
فوائد ومسائل: (۱)راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بظاہر معمولی عمل ہے جس پر زیادہ محنت اور وقت صرف نہیں ہوتا لیکن یہ دخول جنت کا یقینی ذریعہ ہے۔ اس کا اصل سبب وہ داعیہ ہے جو انسان کو یہ کام کرنے پر ابھارتا ہے، وہ ہے مسلمانوں اور مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی اور زندگی کو آسان بنانا۔ پہلی حدیث میں یہ حکم ہے کہ لوگوں سے تکلیف دہ چیز دور کرو۔ اگرچہ اس کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ پتھر، کانٹا وغیرہ جو لوگوں کو گزرتے ہوئے تکلیف دے اسے دور کیا جائے لیکن اس میں یہ معنی بھی آتے ہیں کہ جو چیز بھی لوگوں کو پریشان کرے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص اتنا حساس ہے کہ کسی مسلمان کو کانٹا چبھنا بھی گوارا نہیں کرتا وہ یقیناً اللہ کے حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھنے والا ہوگا جو تمام مخلوق کا خالق ہے اور خالق کے حقوق کی پاسداری کرنے والا یقیناً جنتی ہے۔ (۲) اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی انسان اسلام کے بنیادی فرائض نماز، روزہ اور حج، زکاۃ وغیرہ کی پروا کیے بغیر بس راستہ صاف کرتا پھرے تو وہ جنتی بن جائے گا جیسا کہ بعض صوفیاء اس طرح کی احادیث سے یہ مطلب اخذ کرتے ہیں یا کئی رفاہی تنظیموں کے ذمہ داران اور ان کے کارکنان شعائر اسلام سے بے نیاز ہو کر خدمتِ خلق کو ہی سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ فرائض کی ادائیگی سب سے پہلے ہے۔ (۳) اس طرح کے امور خیر میں ضروری ہے کہ ایسا کرنے والا شخص مسلمان ہو اور اس کی نیت بھی اللہ کی خوشنودی اور مخلوق سے تکلیف کو دور کرنا ہو۔ (۴) ان احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر لوگوں کے راستے کو صاف رکھنا اتنا بڑا ثواب کا کام ہے تو ان کے راستے روکنا یا ان پر گندگی پھینکنا کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ عصر حاضر میں شادی بیاہ حتی کہ مذہبی پروگرام بھی مین روڈ بند کرکے کیے جاتے ہیں بلکہ جب تک عوام کو اذیت نہ دی جائے اس وقت تک ہمارے جلسے جلوس کامیاب معلوم ہی نہیں ہوتے۔ ارباب اقتدار کو چاہیے کہ چوکوں اور روڈوں پر جلسہ و جلوس کرنے پر مکمل پابندی عائد کرے تاکہ مخلوق خدا کو اس اذیت سے چھٹکارا نصیب ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 229