حدثنا خالد، قال: حدثنا سفيان، عن ابي الزبير، عن جابر قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بدابة قد وسم يدخن منخراه، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”لعن الله من فعل هذا، لا يسمن احد الوجه ولا يضربنه.“حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ قَدْ وُسِمَ يُدَخِّنُ مَنْخِرَاهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا، لاَ يَسِمَنَّ أَحَدٌ الْوَجْهَ وَلاَ يَضْرِبَنَّهُ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جانور کے پاس سے گزرے جسے داغا گیا تھا اور اس کے نتھنوں سے داغنے کی وجہ سے دھواں نکل رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ کیا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو، کوئی شخص ہرگز چہرے پر نہ داغے، اور نہ اس پر مارے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، اللباس و الزينة: 2117، 2116 و أبوداؤد: 2564 و الترمذي: 1710 - الصحيحة: 2149»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 175
فوائد ومسائل: (۱)جانوروں یا انسانوں کو داغنے کے جواز اور عدم جواز سے متعلق دونوں طرح کے دلائل ملتے ہیں راجح مسلک درج ذیل ہے: ٭ کسی بھی جانور یا انسان کے چہرے پر داگنا ناجائز اور حرام ہے۔ ٭ انسان کو چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر بیماری وغیرہ کی وجہ سے داغنا جائز ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ ٭ جانوروں کو چہرے کے علاوہ داغنا جائز ہے، البتہ زکاۃ اور جزیے کے جانوروں کو (بطور علامت)داغنا مستحب ہے۔ (۲) جہاں تک چہرے پر مارنے کا تعلق ہے تو جانور اور انسان ہر دو کے چہرے پر مارنا منع ہے کیونکہ چہرہ قابل احترام ہے، البتہ یہ حرمت انسان کے حق میں زیادہ شدید ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 175