حدثنا عبد الله، قال: حدثنا مروان بن معاوية، قال: حدثنا محمد بن عبيد الكندي، عن ابيه قال: سمعت عليا يقول لابن الكواء: هل تدري ما قال الاول؟ احبب حبيبك هونا ما، عسى ان يكون بغيضك يوما ما، وابغض بغيضك هونا ما، عسى ان يكون حبيبك يوما ما.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْكِنْدِيُّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ لِابْنِ الْكَوَّاءِ: هَلْ تَدْرِي مَا قَالَ الأَوَّلُ؟ أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَا، عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا، وَأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْنًا مَا، عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْمًا مَا.
عبید کندی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ابن کواء سے فرما رہے تھے: کیا تجھے معلوم ہوا ہے کہ پہلے لوگوں نے کیا کہا ہے۔ (انہوں نے کہا:) جب تو کسی سے محبت کرے تو حد سے مت بڑھنا، ہو سکتا ہے وہی شخص کل تمہارا دشمن بن جائے۔ اور جس سے بغض رکھو تو بغض میں بھی حد سے نہ بڑھو۔ ہو سکتا ہے وہی شخص کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره موقوفًا، وقد صح مرفوعًا: أخرجه ابن أبى شيبة: 35876 و البيهقي فى الكبرىٰ: 6593 - غاية المرام: 472»
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره موقوفًا، وقد صح مرفوعًا
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1321
فوائد ومسائل: (۱)یہ روایت مرفوعاً بھی صحیح ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر بھی صحیح کہا ہے۔ (غایۃ المرام:۳۷۲) (۲) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ محبت اور دشمنی بھی ایک حد تک ہونی چاہیے۔ محبت کا یہ انداز قطعاً غلط ہے کہ کل کلاں اگر وہ شخص تم سے جدا ہو تو تم برداشت ہی نہ کرسکو۔ یا اپنے راز اس قدر اس کے حوالے کر دو کہ کل اگر اس کے ساتھ مخالفت ہو جائے تو تمہارے لیے مسئلہ بن جائے۔ اسی طرح کسی سے دشمنی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اخلاقیات کی ساری حدود توڑ دے اور اگر کسی موقعہ پر اکٹھا ہونا پڑے تو شرم سے ایک دوسرے کو منہ بھی نہ دکھا سکے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1321