حدثنا علي، قال: حدثنا سفيان، عن عبيد الله بن ابي يزيد، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابي هريرة، خرج النبي صلى الله عليه وسلم في طائفة النهار لا يكلمني ولا اكلمه، حتى اتى سوق بني قينقاع، فجلس بفناء بيت فاطمة، فقال: ”اثم لكع؟ اثم لكع؟“ فحبسته شيئا، فظننت انها تلبسه سخابا او تغسله، فجاء يشتد حتى عانقه وقبله، وقال: ”اللهم احببه، واحبب من يحبه.“حَدَّثَنَا عَلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةِ النَّهَارِ لاَ يُكَلِّمُنِي وَلاَ أُكَلِّمُهُ، حَتَّى أَتَى سُوقَ بَنِي قَيْنُقَاعٍ، فَجَلَسَ بِفِنَاءِ بَيْتِ فَاطِمَةَ، فَقَالَ: ”أَثَمَّ لُكَعٌ؟ أَثَمَّ لُكَعٌ؟“ فَحَبَستْهُ شَيْئًا، فَظَنَنْتُ أَنَّهَا تُلْبِسُهُ سِخَابًا أَوْ تُغَسِّلُهُ، فَجَاءَ يَشْتَدُّ حَتَّى عَانَقَهُ وَقَبَّلَهُ، وَقَالَ: ”اللَّهُمَّ أَحْبِبْهُ، وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے کسی حصے میں باہر نکلے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کوئی بات کرتے اور نہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قینقاع کے بازار میں آئے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے صحن میں آکر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”کیا یہاں چھوٹے صاحب ہیں، کیا یہاں چھوٹے صاحب ہیں۔“ چنانچہ انہیں (سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو) ان کی والدہ نے کسی ضرورت سے روک لیا۔ میں نے خیال کیا کہ ان کی والدہ ان کو ہار پہنا رہی ہیں یا نہلا رہی ہیں۔ پھر وہ دوڑتے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے سے لپٹ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوسہ دیا اور فرمایا: ”اے اللہ! تو اس سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع: 2122 و مسلم: 2421»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1152
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث کا بظاہر باب سے کوئی تعلق نہیں، تاہم اس میں آپ کا باہر جانا ثابت ہے اور پہلی حدیث میں بھی آپ کے باہر جانے کا ذکر ہے۔ (۲) اس سے آپ کی تواضع اور بچوں کے ساتھ شفقت اور لگاؤ کا پتا چلا، نیز سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ (۳) چھوٹے بچوں کو ہار وغیرہ پہنائے جاسکتے ہیں، تاہم سونا پہننا ہر صورت ناجائز ہے۔ (۴) حدیث کے ظاہری الفاظ سے ایسے لگتا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر بنی قینقاع کے بازار میں تھا جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ دراصل یہ روایت مختصر ہے مفصل روایت میں یہ ہے کہ آپ واپس آئے اور پھر فاطمہ کے گھر کے صحن میں تشریف فرما ہوئے۔ تفصیل کے لیے اس کتاب کی حدیث (۱۱۸۳)ملاحظہ کریں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1152