الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر

الادب المفرد
كتاب الجار
62. بَابُ يُكْثِرُ مَاءَ الْمَرَقِ فَيَقْسِمُ فِي الْجِيرَانِ
62. شوربے کا پانی زیادہ کر کے اسے پڑوسیوں میں تقسیم کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 113
Save to word اعراب
حدثنا بشر بن محمد، قال‏:‏ اخبرنا عبد الله، قال‏:‏ اخبرنا شعبة، عن ابي عمران الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر قال‏:‏ اوصاني خليلي صلى الله عليه وسلم بثلاث‏:‏ ”اسمع واطيع ولو لعبد مجدع الاطراف، وإذا صنعت مرقة فاكثر ماءها، ثم انظر اهل بيت من جيرانك، فاصبهم منه بمعروف، وصل الصلاة لوقتها، فإن وجدت الإمام قد صلى، فقد احرزت صلاتك، وإلا فهي نافلة.“حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ‏:‏ أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثٍ‏:‏ ”أَسْمَعُ وَأُطِيعُ وَلَوْ لِعَبْدٍ مُجَدَّعِ الأَطْرَافِ، وَإِذَا صَنَعْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ جِيرَانِكَ، فَأَصِبْهُمْ مِنْهُ بِمَعْرُوفٍ، وَصَلِّ الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ وَجَدْتَ الإِمَامَ قَدْ صَلَّى، فَقَدْ أَحْرَزْتَ صَلاَتَكَ، وَإِلاَّ فَهِيَ نَافِلَةٌ.“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی: میں (امیر کی) بات سنوں اور اطاعت کروں خواہ وہ کان کٹا غلام ہی ہو۔ (اور فرمایا:) جب تم شوربا بناؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈالو، پھر اپنے پڑوس کے (غریب) گھروں کو دیکھو اور اس شوربے میں سے کچھ دستور کے مطابق انہیں بھیج دو۔ اور نماز کو اس کے وقت مقررہ پر ادا کرو۔ اور اگر تم (نماز گھر وغیرہ میں پڑھ کر مسجد آؤ اور) امام کو اس حالت میں پاؤ کہ اس نے نماز پڑھا دی ہے، تو تم نے اپنی (گھر میں پڑھی گئی) نماز کو محفوظ کر لیا، ورنہ (اگر وہ نماز پڑھا رہا ہے تو تم اس کے ساتھ نماز پڑھ لو) تمہاری یہ (دوسری) نماز نفل ہو جائے گی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، البر و الصلة، باب الوصية بالجار والإحسان إليه: 2625 و الترمذي: 1833 و ابن ماجه: 2862، 1256 و رواه أبوداؤد مختصرًا: 431 - الصحيحة: 1368»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 113 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 113  
فوائد ومسائل:
(۱)میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم خلیل اس ساتھی کو کہتے ہیں جس کی دوستی اور محبت دل میں گھر کر جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خلیل اللہ تعالیٰ کو بنایا، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کو اپنا خلیل بنایا۔ یہ محبت کا آخری درجہ ہے۔
(۲) وصیت فرمائی کہ ان تین باتوں کا خصوصی خیال رکھوں اور ان میں کوتاہی نہ کروں کیونکہ ان میں کوتاہی سے دین و دنیا کا سکون خراب ہو جاتا ہے۔ امیر کی اطاعت نہیں ہوگی تو ملک میں انتشار پھیلے گا، پڑوسیوں کا خیال نہیں ہوگا تو معاشرہ خود غرضی اور مفاد پرستی کا شکار ہو جائے گا اور نماز کی حفاظت نہیں ہوگی تو آخرت خراب ہو جائے گی۔
(۳) شرعی امیر اور حاکم کی بیعت کرنے کے بعد اس وقت تک اس کی اطاعت فرض ہے جب تک وہ واضح کفر کا مرتکب نہیں ہوتا۔ اور اس کی موجودگی میں اگر کوئی دوسرا شخص امارت کا دعویٰ کرے تو وہ واجب القتل ہے۔ تاہم مذہبی تنظیموں کے امراء کی حیثیت وہ نہیں ہے جو حاکم کی ہے اور امارت میں اگر کوئی شخص نہیں آتا تو فرض کا تارک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ کسی تنظیم سے الگ ہونا چاہتا ہے تو اس پر بھی گناہ نہیں ہوگا، تاہم اگر کوئی شخص کسی نظم کے تحت کام کر رہا ہے تو اسے نظم کی پابندی ضرور کرنی چاہیے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا شمار اصحاب علم اور زاہد صحابہ میں ہوتا ہے۔ مال جمع کرنے کے معاملے میں جمہور صحابہ سے اختلاف کے باوجود آخری دم تک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر قائم رہے اور ربذہ میں وفات پائی۔
(۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے دوسری بات ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرمائی کہ حتی الوسع ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور تحائف وغیرہ دینا۔ ان سے ربط و تعلق کا ایک طریقہ یہ بھی آپ نے بتایا کہ انسان اگر معمول سے ہٹ کر کوئی عمدہ کھانا بناتا ہے تو ہمسایوں کو بھی ضرور دینا چاہیے اور کھانا بناتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ میں نے ہمسایوں کو بھی دینا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مکارم اخلاق میں سے ہے اور مستحب ہے اور فرض نہیں کیونکہ ہر شخص اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ (شرح صحیح الادب المفرد)
(۵) تیسری وصیت نماز سے متعلق ہے۔ نماز وہ اہم فریضہ ہے جسے ہر روز پانچ بار ادا کیا جاتا ہے۔ ہر نماز کا وقت مقرر ہے اور اسی مقرر وقت میں اسے ادا کرنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو بھی یہی حکم دیا کہ نماز وقت پر ادا کرو۔ اگر تم نے گھر یا کسی اور جگہ نماز وقت پر ادا کرلی اور پھر مسجد میں جانے کا تمہیں اتفاق ہوا اور امام وہاں پر نماز پڑھا رہا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لو تاکہ انتشار وغیرہ نہ پھیلے۔ اور دیکھنے والے اس بحث میں نہ پڑیں کہ اس نے نماز کیوں نہیں پڑھی اور بدظنی بھی پیدا نہ ہو۔ تمہاری یہ دوسری نماز نفل ہو جائے گی اور پہلے جو تم ادا کرچکے ہو وہ تمہارا فریضہ برقرار رہے گا، تاہم اگر جماعت ہو چکی ہے تو پھر نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ فرض نماز ایک دفعہ ادا کرلی جائے تو دوبارہ پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں راجح بات یہی ہے فرض نماز کا اعادہ کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنا تمام فرض نمازوں میں جائز ہے۔ اور اس صورت میں پہلے پڑھی گئی نماز فرض ہوگی اور دوسری نماز نفل ہوں گے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:فضل اللّٰہ الصمد في توضیح الأدب المفرد:۱؍۱۸۰، ۱۸۲ اس موضوع پر نہایت عمدہ بحث ہے۔ اہل علم کو اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 113   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.