حدثنا خلاد بن يحيى، قال: حدثنا مسعر، عن ثابت بن عبيد قال: اتيت مجلسا فيه عبد الله بن عمر، فقال: إذا سلمت فاسمع، فإنها تحية من عند الله مباركة طيبة.حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: أَتَيْتُ مَجْلِسًا فِيهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، فَقَالَ: إِذَا سَلَّمْتَ فَأَسْمِعْ، فَإِنَّهَا تَحِيَّةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبَارَكَةً طَيْبَةً.
ثابت بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں آیا جس میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا: جب سلام کرو تو دوسروں کو سناؤ، یعنی بآواز بلند سلام کرو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1005
فوائد ومسائل: سلام کہنے والے کو چاہیے کہ اپنی آواز اس قدر بلند رکھے کہ جسے سلام کہا جارہا ہے وہ سن لے اور اگر زیادہ افراد ہیں تو اس کے مطابق آواز بلند کرے تاکہ وہ بھی اس کے لیے سلامتی کی دعا کرسکیں۔ البتہ اگر کسی جگہ کچھ لوگ آرام کر رہے ہوں اور کچھ جاگ رہے ہوں تو اس انداز سے سلام کہنا چاہیے کہ جاگنے والے سن لیں اور سوئے ہوؤں کی نیند خراب نہ ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1005