اخبرنا ابو معاوية، نا حمزة الزيات، عن ابي مجاهد سعد الطائي، عن ابي المدله، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قلنا: يا رسول الله ما لنا إذا كنا عندك كان قلوبنا في الآخرة، وإذا خرجنا من عندك فلقينا الاهل والولد ذهب ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنتم إذا خرجتم من عندي تكونون كما تكونون عندي لصافحتكم الملائكة باكفها ولزارتكم في بيوتكم، ولو لم تذنبوا لجاء الله بقوم يذنبون فيغفر لهم"، قلت: يا رسول الله اخبرني مما خلق الخلق، فقال: ((من الماء))، قلت: يا رسول الله اخبرني عن الجنة ما بناؤها، فذكر مثل حديث عيسى إلى آخره سواء، وقال: ((المسك الإذخر وحصباؤها اللؤلؤ والياقوت))، وقال: ((والإمام المقسط لا ترد دعوته)).أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، نا حَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، عَنْ أَبِي مُجَاهِدٍ سَعْدٍ الطَّائِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُدَلَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا إِذَا كُنَّا عِنْدَكَ كَأَنَّ قُلُوبَنَا فِي الْآخِرَةِ، وَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ فَلَقِينَا الْأَهْلَ وَالْوَلَدَ ذَهَبَ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كُنْتُمْ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِي تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ بِأَكُفِّهَا وَلَزَارَتْكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَاءَ اللَّهُ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَغْفِرَ لَهُمْ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مِمَّا خُلِقَ الْخَلْقُ، فَقَالَ: ((مِنَ الْمَاءِ))، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنِ الْجَنَّةِ مَا بِنَاؤُهَا، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ عِيسَى إِلَى آخِرِهِ سَوَاءً، وَقَالَ: ((الْمِسْكُ الْإِذْخِرُ وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالْيَاقُوتُ))، وَقَالَ: ((وَالْإِمَامُ الْمُقْسِطُ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا کیا معاملہ ہے کہ جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو گویا ہمارے دل آخرت میں (لگے) ہوتے ہیں، جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور اپنے اہل و عیال سے ملاقات کرتے ہیں تو ہماری یہ کیفیت جاتی رہتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری میرے پاس سے جانے کے بعد بھی وہی کیفیت رہے جو کہ میرے پاس ہوتے ہوئے ہوتی ہے تو پھر فرشتے اپنے ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کریں، تمہارے گھروں میں تمہاری زیارت کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جو کہ گناہ کریں گے تو انہیں بخش دیا جائے گا۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ مخلوق کی تخلیق کس چیز سے ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی سے“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے جنت اور اس کی تعمیر کے متعلق بتائیں؟ پس راوی نے روایت عیسیٰ کے مثل ذکر کی اور آخر تک اسی طرح بیان کیا اور فرمایا: ”مسک (کستوری) اذخر ہے اور اس کے سنگریزے، ہیرے جواہرات اور یاقوت ہیں۔“ اور فرمایا: ”مصنف بادشاہ کی دعا رد نہیں کی جاتی۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 304/2. قال شعيب الارناوط: صحيح بطرقه وشواهد. صحيح الجامع الصغير، رقم: 5253.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 920 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 920
فوائد: (1) مذکورہ حدیث سے ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہنے والوں کی فضیلت واضح ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ ایمانی کیفیت ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی ایمانی کیفیت کے متعلق بہت محتاط رہنا چاہیے۔ معلوم ہوا کہ دنیا میں مشغول ہونا، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا، شرعی حقوق کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ساتھ حقوق اللہ بھی ادا کرنے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کی اور دوزخ کا ذکر کیا، پھر میں گھر میں آیا اور بچوں سے پیار کیا اور کچھ دیر بیوی سے مشغول رہا۔ پھر میں نکلا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے، میں نے ان سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: میں نے بھی ایسا کیا، پھر ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! حنظلہ تو منافق ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کہتا ہے؟“ میں نے سارا حال بیان کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کی طرح کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حنظلہ! ایک ساعت یاد کی ہے اور ایک ساعت غفلت کی، اگر تمہارے دل اسی طرح رہیں جیسے وعظ کے وقت ہوتے ہیں تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں یہاں تک کہ راہوں میں تم کو سلام کریں۔“(مسلم، کتاب التوبة، باب فضل دوام الذکر والجواز ترک ذلك، رقم: 2750) (2).... مذکورہ بالاحدیث میں یہ ہے کہ: ((لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَاءَ اللّٰهِ بِقَوْمٍ)) اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے گناہ کریں یا وہ گناہ گار لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تو ہر انسان ہی خطا کار ہے، کیونکہ طبعی طور پر وہ غلطی کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے اور کسی وقت بھی اس سے کوئی گناہ ہو سکتا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ))(سنن ترمذي، رقم: 2499۔ ابن ماجة، رقم: 4251) .... ”آدم کی تمام اولاد خطا کرنے والی ہے اور خطا کرنے والوں میں سب سے بہتر توبہ کرنے والے ہیں۔“(شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن کہا ہے) کیونکہ گناہ سرزد ہونے کے بعد توبہ و استغفار سے بندے کو قرب کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو گناہ سرزد نہ ہونے سے اسے حاصل نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنَاتٍ﴾(الفرقان: 70).... ”یہ لوگ (جو گناہ کے بعد توبہ کرتے) ہیں، ان کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔“ (3).... مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا مخلوق کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے۔ انسان کے متعلق اللہ ذوالجلال نے فرمایا ہے: ﴿وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا﴾(الفرقان: 54) ....”وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا۔“