اخبرنا ابو داود الحفري، عن سفيان، عن عمارة، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
جناب ابوزرعہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی سابقہ حدیث کی مانند روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «السابق.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 764 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 764
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا حسن سلوک کی باپ کی نسبت ماں زیادہ حق دار ہے۔ اس لیے کہ ماں بچے کی خدمت کرنے میں سب سے زیادہ مشقت برداشت کرتی ہے اور ضعیف ہونے کی وجہ سے بھی حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے اور پھر باپ کی نسبت زیادہ نرم دل اور زیادہ حساس ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ﴾(لقمان: 14) ”اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق وصیت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھایا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔“ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّهَاتِ))(بخاري، کتاب الاخلاق، رقم: 5975).... ”اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے۔“ اس میں بھی والدہ کا خصوصی تذکرہ ہوا ہے کہ اس کا دل دکھانا حرام ہے، حالانکہ والد کا دل دکھانا بھی حرام ہے۔ لیکن ماں کا حق زیادہ ہے، اس لیے نبی علیہ السلام نے والدہ کا خصوصی تذکرہ کیا، تین دفعہ حسن سلوک کی تاکید والدہ کے لیے فرمائی اور والد کے لیے ایک دفعہ تاکید فرمائی۔ علماء کرام کہتے ہیں کہ اولاد کے لیے ماں تین مشقتیں برداشت کرتی ہے۔ (1)حمل کی (2)جننے کی (3)اور دودھ پلانے کی۔ اس وجہ سے فقہاء نے تشریح کی ہے کہ احسان اور سلوک میں ماں کا حق باپ پر مقدم ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ وہ اپنی ناداری کی وجہ سے دونوں کے ساتھ سلوک نہیں کر سکتا تو ماں کے ساتھ سلوک کرنا مقدم ہے البتہ اعزاز اور ادب وتعظیم میں باپ کا حق ماں پر مقدم ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ باپ کے بعد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ثُمَّ الْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَب۔))”اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں، پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں۔“(ادب المفرد، رقم: 3) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن کہا ہے۔ معلوم ہوا والد کے بعد باقی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ اور اس میں بھی رشتہ داری کی حیثیت کو معیار بنایا کہ جس سے رشتہ داری جس قدر قریب تر ہو، اس کے ساتھ حسن سلوک کا اسی قدر اہتمام کیا جائے۔