اخبرنا يعلى بن عبيد، نا ابو منين، وهو يزيد بن كيسان، عن ابي حازم، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((لادفعن الراية اليوم إلى رجل يحب الله ورسوله))، قال: فتطاول لها الناس، فقال: ((اين علي))، فقيل: إنه يشتكي عينيه فدعاه فبزق في كفه، ثم مسحه عليها، ثم امره ان يمضي ففتح الله عليه يومئذ. قال ابو هريرة رضي الله عنه: وما اشبع رسول الله صلى الله عليه وسلم اهله ثلاثا من خبز البر.أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا أَبُو مُنَيْنٍ، وَهُوَ يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَأَدْفَعَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ إِلَى رَجُلٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ))، قَالَ: فَتَطَاوَلَ لَهَا النَّاسُ، فَقَالَ: ((أَيْنَ عَلِيٌّ))، فَقِيلَ: إِنَّهُ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ فَدَعَاهُ فَبَزَقَ فِي كَفِّهِ، ثُمَّ مَسَحَهُ عَلَيْهَا، ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ يَمْضِيَ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَوْمَئِذٍ. قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَمَا أَشْبَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَهُ ثَلَاثًا مِنْ خُبْزِ الْبُرِّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”میں آج پرچم ایسے شخص کے حوالے کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔“ راوی نے بیان کیا: پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس (پرچم) کے ملنے کی امید لگائی (اور وہ دیکھنے لگے کہ پرچم کسے ملتا ہے) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی کہاں ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ان کی آنکھ دکھتی ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں بلایا اور ہاتھ پر لعاب دہن ڈال کر آنکھ پر مل دیا، پھر انہیں حکم فرمایا کہ جاؤ اور لڑو، پس اللہ نے اس دن ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن اپنے اہل کو گندم کی روٹی کھلا کر شکم سیر نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل على ابن ابي طالب رضى الله عنه، رقم: 2405. صحيح ابن حبان، رقم: 6933.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 559 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 559
فوائد: (1) مذکورہ روایت سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ آپ کا نام: علی بن ابو طالب بن عبدالمطلب بن عبد مناف۔ کنیت: ابوالحسن، والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پرورش اور تربیت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہوئی تھی۔ اور بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد 2 ہجری میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی دامادی کا شرف بخشا۔ اور غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو سکے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا نائب بنا کر مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم دیا۔ باقی تمام غزوات میں کارہائے نمایاں دکھائے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بنے۔ 40ہجری رمضان المبارک بروز جمعہ خارجی عبدالرحمن بن ملجم نے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا اور آپ رضی اللہ عنہ تین دن کے بعد شہید ہوگئے اور آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تیری وہ نسبت ہو جو ہارون کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی؟ “(بخاري، کتاب الفضائل اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم، رقم: 3706) ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ((اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْكَ))(بخاري، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم، باب مناقب علی بن ابی طالب القرشی الهاشمی)”تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔“ مذکورہ بالا حدیث کا واقعہ غزوۂ خیبر کاہے، غزوۂ خیبر ہجرت کے ساتویں سال ہوا تھا۔ خیبر کا علاقہ مدینہ منورہ کے شمال کی جانب ہے اور یہ یہودیوں کا مرکز تھا، اس علاقے میں بہت زیادہ کھجوریں تھیں۔ یہاں کے رہنے والے یہودیوں کی یہ سازش تھی کہ مسلمانوں کو ملیا میٹ کر دیا جائے اور لگاتار یہ اپنی سازشوں میں مصروف رہے یہاں تک کہ 7 ھ کو اس علاقے پر حملہ کیا گیا، کئی ہفتوں کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اللہ ذوالجلال نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ مذکورہ بالاروایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب مبارک لگایا تو ٹھیک ہو گئیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ (2).... مذکورہ حدیث کے آخر میں ہے۔ تین دن اپنے اہل کو گندم کی روٹی کھلا کر شکم سیر نہیں کیا۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد، استغنا اور سادہ زندگی بسر کرنے کا اثبات ہوتا ہے، کیونکہ اس وقت گندم عرب میں بہت زیادہ قیمتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر کھجوروں اور پانی پر ہی گزارہ کرتے تھے۔