اخبرنا النضر بن شميل، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن ابي رافع، عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رجلا، كان يزور اخا له في قرية اخرى، وكان على مدرجته ملك، فقال: له اين تريد؟ فقال: ازور اخا لي في قرية اخرى، فقال له: فهل له عليك من نعمة تربها، فقال: لا ولكني احببته لله، فقال: فإني رسول الله إليك باني قد احببتك بما احببته في.أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا، كَانَ يَزُورُ أَخًا لَهُ فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى، وَكَانَ عَلَى مَدْرَجَتِهِ مَلِكٌ، فَقَالَ: لَهُ أَيْنَ تُرِيدُ؟ فَقَالَ: أَزُورُ أَخًا لِي فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ لَهُ: فَهَلْ لَهُ عَلَيْكَ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا، فَقَالَ: لَا وَلَكِنِّي أَحْبَبْتُهُ لِلَّهِ، فَقَالَ: فَإِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ بِأَنِّي قَدْ أَحْبَبْتُكَ بِمَا أَحْبَبْتَهُ فِيَّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی کسی دوسری بستی میں اپنے (مسلمان) بھائی کی ملاقات (زیارت) کیا کرتا تھا، اس کے راستے میں ایک فرشتہ تھا، اس نے اسے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا: میں دوسری بستی میں اپنے بھائی کی زیارت کروں گا، اس نے اسے کہا: کیا اس کا تم پر کوئی حسان ہے، جس کا تم خیال رکھتے ہو، اس نے کہا: نہیں، لیکن میں اس سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں، اس نے کہا: میں تمہاری طرف اللہ کا فرستادہ ہوں (اس نے فرمایا ہے) کہ جس طرح تم میری خاطر اس سے محبت کرتے ہو، اسی طرح میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب البر والصلة، باب فى فضل الحب فى الله، رقم: 2567. مسند احمد: 482/2. صحيح ابن حبان، رقم: 576.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 545 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 545
فوائد: مذکورہ واقعہ پہلی امت کے کسی فرد کا معلوم ہوتا ہے، معلوم ہوا کہ فرشتے کبھی کبھی اللہ کے حکم سے کسی غیر نبی کے پاس بھی آسکتے ہیں اور اس سے اس طرح کی باتیں کر سکتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ سیدنا جبریل علیہ السلام کو سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَابَشَرًا سَوِیًّا﴾(مریم: 17).... ”بھیجا ہم نے اس (مریم) کے پاس اپنی روح (جبرائیل علیہ السلام) کو، پس وہ اس کے سامنے پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا۔“ مذکورہ حدیث سے محض اللہ ذوالجلال کی رضا کی خاطر محبت کرنے اور ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کی فضیلت کا بھی اثبات ہوتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ ذوالجلال کی رضا کی خاطر اپنے مسلمان بھائی کی ملاقات کے لیے سفر کرنا جائز ہے۔ اور ایسے خوش نصیب لوگوں کو اللہ ذوالجلال اپنے عرش کا سایہ بھی عطا کرے گا، جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات قسم کے آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جب کہ اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا، اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا۔“ ان میں سے ایک ”رَجُـلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰهِ اِجْتَمَعَا عَلَیْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْهِ۔“ وہ دو آدمی جو ایک دوسرے سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں، اسی پر وہ باہم جمع ہوتے اور اسی پر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔“(صحیح بخاري، رقم: 77) اور حدیث قدسی میں ہے کہ (قیامت کے دن) اللہ ذوالجلال فرمائے گا: ”میری جلالت وعظمت کی خاطر باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ ان کے لیے نور کے منبر ہیں۔“(جس پر وہ بیٹھیں گے)(سنن ترمذي، رقم: 2390 اسناده صحیح)