اخبرنا الثقفی، نا ایوب، عن عکرمة، عن ابن عباس قال: کان زوج بریرة عبدا اسود، یقال له مغیث، کأنی انظر الیه یطوف وراءها فی سکک المدینة.اَخْبَرَنَا الثَّقَفِیُّ، نَا اَیُّوْبُ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ زَوْجُ بَرِیْرَةَ عَبْدًا اَسْوَدَ، یُقَالُ لَهٗ مُغِیْثٌ، کَأَنِّیْ اَنْظُرُ اِلَیْهِ یَطُوْفُ وَرَاءَهَا فِیْ سِکَکِ الْمَدِیْنَةِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: بریرہ کے شوہر حبشی غلام تھے، ان کا نام مغیث تھا، گویا کہ میں انہیں ان (بریرہ رضی اللہ عنہا) کے پیچھے مدینے کی گلیوں میں چکر لگاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الطلاق، باب خبار الامة تحت العبد، رقم: 5281. سنن ابوداود، رقم: 2233، 2232. سنن نسائي، رقم: 5417. سنن ابن ماجه، رقم: 2075.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 481 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 481
فوائد: سیّدہ بریرہ رضی اللہ عنہا اور ان کا خاوند دونوں غلام تھے۔ سیّدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند مغیث رضی اللہ عنہ، اپنی بیوی سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ کیونکہ بریرہ رضی اللہ عنہا خوبصورت اور سیّدنا مغیث رضی اللہ عنہ کالے رنگ کے تھے، جبکہ سیّدہ بریرہ رضی اللہ عنہا سیّدنا مغیث رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں کرتی تھی۔ شرعی اصول یہ ہے کہ جب دونوں غلام ہوں اور عورت پہلے آزاد ہوجائے تو عورت کو اختیار ہے کہ اپنے خاوند کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا کہ نہیں؟ لیکن اگر شوہر آزاد ہوجائے تو کیا پھر عورت کو اختیار ہے یا کہ نہیں؟ جمہور کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں عورت کو اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ اختیار کی علت غلام ہونے کی وجہ سے عدم کفایت تھی جو کہ اب موجود نہیں، جب کہ احناف کا کہنا ہے کہ اسے ابھی بھی اختیار حاصل ہے۔ حدیث بریرہ سے غلاموں کے متعلق کئی مسائل واضح ہوتے ہیں۔ (نیل الاوطار: 4؍ 235۔ المغنی: 9؍ 453)