اخبرنا يعلى بن عبيد، نا فضيل، وهو ابن غزوان، عن ابن ابي نعم، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الفضة بالفضة مثلا بمثل وزنا بوزن، فما زاد فهو ربا، والذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن فما زاد فهو ربا، ولا تباع تمرة حتى يبدو صلاحها".أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا فُضَيْلٌ، وَهُوَ ابْنُ غَزْوَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ، فَمَا زَادَ فَهُوَ رِبًا، وَالذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ فَمَا زَادَ فَهُوَ رِبًا، وَلَا تُبَاعُ تَمْرَةٌ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاندی چاندی کے بدلے میں برابر برابر ہم وزن بیع کی جائے، پس جو زائد ہو تو وہ سود ہے اور سونا سونے کے بدلے میں برابر برابر ہم وزن بیع کیا جائے پس جو زیادہ ہو تو وہ سود ہے اور کھجوروں کی بیع نہ کی جائے حتیٰ کہ ان (کے پکنے) کی صلاحیت ظاہر ہو جائے۔“
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق..، رقم: 1588. سنن ترمذي، رقم: 1240. سنن نسائي، رقم: 4569. مسند احمد: 262/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 446 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 446
فوائد: (1).... سود کی دو اقسام فقہاء نے بیان کی ہیں: (1) ربا الفضل:.... ایک جنس کی دو اشیا کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا۔ (2) ربا النسیئة:.... اس میں کمی بیشی تو نہ ہو لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار کا معاملہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے برابر برابر اور نقد بنقد (فروخت کیا جائے) اگر اجناس مختلف ہوں تو پھر جیسے چاہو فروخت کرو بشرطیکہ قیمت کی ادائیگی نقد بنقد ہو۔ (مسلم، کتاب المساقاة، رقم: 1587) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ جن چھ اشیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کا آپس میں ہم جنس سے یعنی سونے کا سونے سے اور چاندی کا چاندی سے مبادلہ میں کمی بیشی حرام ہے اور دوسری بات اگر برابر برابر بھی ہو تو شرط یہ ہے کہ نقد بنقد ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: سونا سونے کے بدلہ میں وزن میں برابر برابر اور قسم میں ایک ہو، چاندی چاندی کے بدلہ میں وزن میں برابر برابر اور قسم میں ایک جیسی ہو، پھر اگر کوئی زیادہ لے یا زیادہ دے تو وہ سود ہے۔ (مسلم، کتاب المساقاة، رقم: 1588) اور اگر اجناس مختلف ہوں تو پھر کمی بیشی جائز ہے۔ مثلاً ایک صاع کھجوریں دے کر دو صاع گندم لینا، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی قیمت نقد ادا کی جائے یا وہ چیز نقد دی جائے اور اگر اُدھار ہو تو فریقین کی رضا مندی اور جنس و دت کا تعین ضروری ہے۔ (2).... مذکورہ بالاحدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھجوروں کی بیع نہیں کرنی چاہیے، جب تک ان کے پکنے کی صلاحیت ظاہر نہ ہو۔ کیونکہ ممانعت کا سبب دھوکہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم، رقم: 1513۔ سنن ابي داود، رقم: 3376)