اخبرنا جرير، عن عمارة، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته بعير لها رغاء))، فذكر مثله إلى آخره ولم يذكر اوله.أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهَا رُغَاءٌ))، فَذَكَرَ مِثْلَهُ إِلَى آخِرِهِ وَلَمْ يَذْكُرْ أَوَّلَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں قیامت کے دن تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اس نے اپنی گردن پر اونٹ اٹھا رکھا ہو اور وہ بلبلا رہا ہو۔“ پس راوی نے حدیث کے آخر تک اس کے مثل ذکر کیا، لیکن اس کا اول حصہ ذکر نہ کیا۔
تخریج الحدیث: «السابق»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 441 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 441
فوائد: مذکورہ، حدیث سے امانت کی اہمیت اور خیانت کرنے والوں کا انجام بد واضح ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾(آل عمران: 161) ”کسی نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے اور ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لیے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا، پھر ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ ظلم نہ کیے جائیں گے۔“ حدیث میں مذکور معاملہ میدانِ محشر میں پیش آئے گا، تاکہ اس انسان کو ذلیل کیا جائے۔ خیانت کرنا بہت بڑا جرم اور نفاق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی نشانیاں تین ہیں: ((اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا ائْتُمِنَ خَانَ))(بخاري، رقم: 34)”جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کو امانت دار سمجھا جائے تو خیانت کرے۔“ قرآن مجید میں اللہ ذوالجلال نے مومنوں کی صفتوں کا تذکرہ کیا تو فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ() .... وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمَانٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَ() وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ() اُوْلٰٓئِكَ هُمُ الْوَارِثُوْنَ() الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ﴾(المومنون: 1۔11) یقینا ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی (ایمان والے وہ ہیں) .... جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔“ اور یہی وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔