اخبرنا النضر، نا شعبة، نا محمد، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذروني ما تركتكم فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم واختلافهم على انبيائهم، فما امرتكم من شيء فاتوا منه ما استطعتم فإذا نهيتكم عن شيء فدعوه.أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، نا مُحَمَّدٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَمَا أَمَرْتُكُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جن امور میں تمہیں چھوڑے رکھوں تو تم مجھے چھوڑے رکھو (مجھ سے سوال نہ کرو)، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء علیہم السلام سے زیادہ سوال کرنے اور ان سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے، پس میں کسی چیز کے متعلق تمہیں حکم دوں تو مقدور بھر اس پر عمل کرو اور جب کسی چیز کے بارے میں تمہیں منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔“
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الحج، باب فرض الحج مرة فى العمر رقم: 1337. سنن ترمذي، رقم: 2679. مسند احمد، رقم: 7361»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 300 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 300
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کثرت سے سوال کرنے سے بچنا چاہیے، کیونکہ گزشتہ لوگ کثرت سوال اور انبیاء علیہم السلام کے بتائے ہوئے احکامات سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا لیکن انہوں نے بے کار اور لغو سوالات کر کے اپنے آپ کو مشکل میں پھنسا دیا۔ (دیکھئے سورۂ بقرہ آیت نمبر 67۔71) مذکورہ بالا حدیث میں ہے جس چیز کا میں تمہیں حکم دوں تو بقدر استطاعت اس پر عمل کرو۔ اس فرمان مبارک میں ان گنت احکامات کو سمو دیا گیا ہے جن پر انسان بقدر استطاعت عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ جیسے فریضہ نماز ہے، اب اس میں قوت نفس کا تعلق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کھڑا ہو کر نماز ادا نہیں کر سکتا تو بیٹھ کر ادا کر لے، اگر بیٹھ کر بھی نہیں تو لیٹ کر۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس چیز سے روکا گیا ہے اس سے اجتناب لازم ہے۔ البتہ اضطراری حالت مستثنیٰ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْهِ﴾(الانعام: 119)”اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے محرمات کو تفصیل سے بیان کر دیا مگر جن کی طرف تم لاچار کیے گئے۔“ معلوم ہوا مجبوری اور اضطراری کی حالت میں حرام اشیاء کا بقدر ضرورت استعمال جائز اور حلال ہے۔ حالت اضطراری سے مراد وہ حالت ہے جوا نسانی زندگی کو موت کے قریب پہنچا دے یا کم از کم جس میں انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ (مزیددیکھئے حدیث وشرح 60)