اخبرنا ابو معاوية، نا الاعمش، عن شقيق، عن عمرو وهو ابن الحارث بن المصطلق , عن ابن اخي زينب امراة عبد الله , عن زينب امراة عبد الله قالت: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحثنا على الصدقة، فقال: ((يا معشر النساء، تصدقن ولو من حليكن، فإنكن من اكثر جهنم يوم القيامة)) قالت: وكان عبد الله خفيف ذات اليدين، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم القيت عليه المهابة، فقلت لعبد الله: سل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصدقة على ازواجنا ويتامى في حجورنا، فقال: لا بل سليه انت، فانطلقت إلى الباب، فإذا امراة من الانصار حاجتها مثل حاجتي، فخرج علينا بلال، فقلنا له: سل لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: ايجزئ عنا من الصدقة على ازواجنا ويتامى في حجورنا؟ فدخل بلال، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من بالباب؟)) فقال: زينب امراة عبد الله , وامراة اخرى تسالانك: اتجزئ عنهما من الصدقة الصدقة على ازواجهما ويتامى في حجورهما؟ فقال: ((فيهما اجر الصدقة واجر القرابة)).أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، نا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ , عَنِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَثَّنَا عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقَالَ: ((يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ مِنْ أَكْثَرِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) قَالَتْ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ خَفِيفَ ذَاتِ الْيَدَيْنِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَتْ عَلَيْهِ الْمَهَابَةُ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّدَقَةِ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَيَتَامَى فِي حُجُورِنَا، فَقَالَ: لَا بَلْ سَلِيهِ أَنْتِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْبَابِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ حَاجَتُهَا مِثْلُ حَاجَتِي، فَخَرَجَ عَلَيْنَا بِلَالٌ، فَقُلْنَا لَهُ: سَلْ لَنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُجْزِئُ عَنَّا مِنَ الصَّدَقَةِ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَيَتَامَى فِي حُجُورِنَا؟ فَدَخَلَ بِلَالٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ بِالْبَابِ؟)) فَقَالَ: زَيْنَبُ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ , وَامْرَأَةٌ أُخْرَى تَسْأَلَانِكَ: أَتُجْزِئُ عَنْهُمَا مِنَ الصَّدَقَةِ الصَّدَقَةُ عَلَى أَزْوَاجِهِمَا وَيَتَامَى فِي حُجُورِهِمَا؟ فَقَالَ: ((فِيهِمَا أَجْرُ الصَّدَقَةِ وَأَجْرُ الْقَرَابَةِ)).
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو ہمیں صدقہ کی ترغیب دی، فرمایا: ”خواتین کی جماعت صدقہ کرو، خواہ اپنے زیورات میں سے کرو، کیونکہ قیامت کے دن جہنم میں زیادہ تر تعداد تمہاری ہو گی۔“ انہوں نے بیان کیا، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس مال کم تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارعب شخصیت تھے، میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے ازواج پر اور ہماری پرورش میں یتیم بچوں پر صدقہ کرنے کے متعلق پوچھیں، انہوں نے کہا: نہیں۔ بلکہ تم خود ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو، پس میں دروازے کی طرف گئی، میں نے وہاں انصار کی ایک خاتون کو دیکھا، اس کا بھی میرے والا ہی مسئلہ تھا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے، تو ہم نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے مسئلہ دریافت کریں کہ ہماری طرف سے اپنے ازواج اور ہماری پرورش میں یتیم بچوں پر صدقہ کرنا ہم سے کفایت کرے گا؟ سیدنا بلال رضی اللہ عنہا اندر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دروازے پر کون ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا اور ایک دوسری خاتون، آپ سے مسئلہ دریافت کرتی ہیں: کیا ان کی طرف سے اپنے ازواج اور اپنی پرورش میں یتیم بچوں پر صدقہ کرنا ان سے کفایت کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں (پر صدقہ کرنے) میں صدقہ کرنے اور قرابت داری کا (دوہرا) اجر ہے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الزكاة، باب الزكاة على الزوج الخ، رقم: 1466. مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل النفقة والصدقة الخ، رقم: 1000. سنن ترمذي، رقم: 625. سنن نسائي، رقم: 2583. مسند احمد: 363/6.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 298 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 298
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ زیر کفالت مستحق لوگوں کو زکاۃ دینا جائز ہے۔ لیکن اولاد کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اولاد کو کھلانا والدین کی ذمہ داری ہے اور اسی طرح والدین کو اولاد زکاۃ نہیں دے سکتی۔ کیونکہ اولاد کا مال والدین کا ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ((اَنْتَ وَمَالُكَ لِاَبِیْكَ۔))(صحیح ابن ماجہ، رقم: 1855، 1856) .... ”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کی ملکیت ہیں۔“ معلوم ہوا والدین کو زکاۃ دینا یا والدین کا اولاد کو زکاۃ دینا ایسا ہی ہے جیسے اپنے نفس کو زکاۃ دینا ہے۔