اخبرنا عفان بن مسلم، نا حماد بن سلمة، عن محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتي بطعام من غير اهله سال عنه، فإن قيل: هدية، اكل، وإن قيل: صدقة، قال: كلوا ولم ياكل.أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِ سَأَلَ عَنْهُ، فَإِنْ قِيلَ: هَدِيَّةٌ، أَكَلَ، وَإِنْ قِيلَ: صَدَقَةٌ، قَالَ: كُلُوا وَلَمْ يَأْكُلْ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کے گھر کا کھانا پیش کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق پوچھتے، اگر بتایا جاتا کہ یہ ہدیہ ہے تو آپ تناول فرماتے، اور اگر کہا جاتا کہ صدقہ ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”کھاؤ“ اور آپ تناول نہ فرماتے۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب اللقطة، باب اذا وجد ثمرة فى الطريق: رقم: 2432. مسلم، كتاب الزكاة، باب قبول النبى الهدية ورده الصدقه: 1077. مسند احمد: 406/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 278 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 278
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہ کھاتے تھے، کیونکہ آپ کی ذات اور آپ کی آل پر صدقہ حلال نہ تھا۔ کیونکہ یہ لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں تھا کہ اس کا نبی اور نبی کی آل صدقہ استعمال میں لائیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری حکمتیں تھیں۔ (مزید دیکھئے حدیث وشرح: 50۔ 51)