اخبرنا المؤمل بن إسماعيل، نا حماد بن سلمة، نا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام ليلة يصلي فلما اصبح قال: ((ليرحم الله فلانا، كاين من قراءته اذكرنيها وقد كنت نسيتها)).أَخْبَرَنَا الْمُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ لَيْلَةً يُصَلِّي فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: ((لِيَرْحِمِ اللَّهُ فُلَانًا، كَأَيِّنْ مِنْ قِرَاءَتِهِ أَذْكَرَنِيهَا وَقَدْ كُنْتُ نُسِّيتُهَا)).
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات تہجد پڑھتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: ”اللہ فلاں شخص پر رحم فرمائے، کتنی ہی آیات اس نے مجھے یاد کرا دیں جو مجھے بھلا دی گئی تھیں۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الصلاة، باب رفع الصوت بالقراء فى صلاة الليل، رقم: 3970، 1331. قال الالباني: صحيح»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 237 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 237
فوائد: شیخ ابوعمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام اسماعیل فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کو بھولنا دو طرح سے ہوسکتا ہے: ایک عارضی اور دوسرا دائمی۔ عارضی نسیان بنی آدم کی طبائع میں فطرتاً رکھا گیا ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں۔ نماز کی رکعات میں بھول جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اَنْسِیْ کَمَا تَنْسَوْنَ))(صحیح بخاري، الصلاة، رقم: 401۔ مسلم، رقم: 574) .... ”میں بشر ہوں جیسے تم بھولتے ہو، میں بھی بھول جاتا ہوں۔“ اور اس قسم کے نسیان کا ازالہ ہوجاتا ہے کبھی از خود اور کبھی دوسرے کے یاد دلانے سے، اور اللہ عزوجل نے حفاظت قرآن کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾(الحجر:9)”ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ “ نسیان کی دوسری قسم یہ ہے کہ آپ کے سینے سے آیات کا حفظ بالکلیہ ختم کردیا جائے۔ یہ نسخ کی ایک قسم اور صورت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسٰی () اِِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ اِِنَّهٗ﴾(الاعلی: 6،7) .... ”ہم آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں مگر جو اللہ چاہے۔“