اخبرنا النضر، نا صالح بن ابي الاخضر، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، وابي عبد الله الاغر، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله ينزل كل ليلة إذا بقي ثلث الليل الآخر إلى السماء الدنيا فيقول: من يدعوني استجب له، ومن يستغفرني فاغفر له".أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ كُلَّ لَيْلَةٍ إِذَا بَقِيَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَهُ، وَمَنْ يَسْتَغِفِرُنِي فَأَغْفِرُ لَهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہر رات جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کون مجھے پکارتا ہے میں اس کی دعا قبول کروں، کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التهجد، باب الدعاء والصلاة من اخر الليل، رقم: 1145. مسلم كتاب صلاة المسافرين، باب الترغيب فى الدعاء الخ، رقم: 758. سنن ابوداود، رقم: 1315. سنن ابن ماجه، رقم: 1366.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 236 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 236
فوائد: (1).... مذکورہ حدیث سے اللہ ذوالجلال کے نزول کا اثبات ہوتا ہے اور اس کا نازل ہونا برحق ہے اور وہ اپنی ذات سے اترتا ہے نہ کہ اس سے مراد اس کی رحمت یا فرشتہ، جیسا کہ لوگ تاویلیں پیش کرتے ہیں ”تحفۃ الاحوذی“ میں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جمہور سلف اور ائمہ اربعہ اور بہت سارے علمائے دین کا یہ عقیدہ ہے کہ بغیر تاویلات، کیفیت اور تشبیہ کے اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالیٰ وارد ہوئی ہیں ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور درست ہے۔ اور سلف کی اتباع لازم پکڑ لے اور تاویلات والوں میں سے مت ہوں۔“ معلوم ہوا اللہ ذوالجلال کی ان صفتوں پر ایمان لانا چاہیے اور انکار یا تاویلات نہیں کرنی چاہئیں اور نہ ہی ان صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح سمجھنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیْئٌ وَهُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾(الشوریٰ: 11) (2).... مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا رات کا آخری حصہ انتہائی افضل ہے اور اس وقت نفل ونوافل پڑھنے چاہئیں، استغفار کرنا چاہیے اور دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اللہ ذوالجلال نے اپنے بندوں کی صفتیں بیان کی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ() وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾(الذاریات: 17۔18).... ”وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔“