اخبرنا وكيع، نا سفيان، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الربيع بنت معوذ ابن عفراء قالت: ((اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوضعت له الميضاة فتوضا ثلاثا ثلاثا ومسح براسه مرتين)).أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ قَالَتْ: ((أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعْتُ لَهُ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ)).
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ کے لیے پانی کا بڑا برتن رکھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار اعضاء وضو دھوئے اور دو بار سر کا مسح کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابودواد، كتاب الطهارة، باب وضو النبى صلى الله عليه وسلم، رقم: 126. ابواب الطهارة، باب ماجاء انه بيدا يموخر الراس، رقم: 33. قال الشيخ الالباني: حسن»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 101 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 101
فوائد: مذکورہ حدیث میں ہے سر کا مسح دوبار کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: ”مَسَحَ بِرَأْسِهٖ مَرَّۃً“ .... ”سر کا مسح ایک مرتبہ کیا“(صحیح ترمذي، رقم: 44۔ سنن ابن ماجة، رقم: 456) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اپنے سر کا مسح کیا۔“(صحیح ابي داؤد، رقم: 101) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: امام ابوداود رحمہ اللہ نے اسے دو سندوں سے روایت کیا ہے جن میں سے ایک کو تین مرتبہ سر کے مسح کے متعلق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں صحیح کہا ہے اور (واضح رہے کہ) ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 1؍ 312) امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ مسح بھی بقیہ اعضاء کی طرح تین مرتبہ کرنا مستحب ہے۔ (کتاب الام: 1؍ 26) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تین مرتبہ مسح کی احادیث اگر صحیح ہوں تو ان کا معنی یہ ہوگا کہ جو شخص زیادہ مسح کرنا چاہے وہ زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مسح کر سکتا ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ تین مرتبہ مسح کرنا بہر صورت لازم ہے۔ (فتح الباري: 1؍ 399) راجح یہی ہے کہ وضوء میں ایک مرتبہ مسح کرنا واجب ہے جبکہ دو، یا تین مرتبہ کرنا سنت ومستحب ہے۔ واللہ اعلم