تخریج: «أخرجه مسلم، البيوع، باب في المزارعة والمؤاجرة، حديث:1549.»
تشریح:
1. یہ حدیث مزارعت کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے اور بظاہر ان احادیث کے معارض و مخالف ہے جن میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔
مگر ابوداود میں حضرت عروہ بن زبیر کی روایت سے یہ اشکال رفع ہو جاتا ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے‘ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس حدیث کا مجھے ان سے زیادہ علم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو انصاری آدمی آئے‘ دونوں جھگڑ رہے تھے۔
یہ صورتحال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تمھاری یہ حالت ہے تو پھر کھیتیاں ٹھیکے پر نہ دیا کرو۔
“ (سنن أبي داود‘ البیوع‘ باب في المزارعۃ‘ حدیث:۳۳۹۰) چنانچہ حضرت رافع نے آپ کا فرمان:
”کھیتیاں ٹھیکے پر نہ دیا کرو۔
“ سن لیا۔
حضرت زید کی مراد یہ تھی کہ حضرت رافع نے حدیث کا پہلا حصہ نہیں سنا‘ لہٰذا یہ مقصود میں مخلّ ہوا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع تو نہیں فرمایا‘ البتہ یہ فرمایا تھا:
”تم میں سے کسی ایک کا اپنی زمین کو فائدہ اٹھانے کے لیے دے دینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اس کے بدلے میں معلوم و متعین محصول لے۔
“ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں جو نہی ہے وہ قبل از اسلام رائج طریقے کے بارے میں ہے جس کا ذکر سابقہ حدیث میں ہو چکا ہے۔
2. اس حدیث میں جو ممانعت وارد ہوئی ہے بعض علماء نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے۔
دراصل بات یہ تھی کہ آغاز اسلام میں مہاجرین بالخصوص حاجت مند و ضرورت مند تھے۔
ان کے پاس زمینیں نہیں تھیں۔
انصار کے پاس زائد زمینیں کافی تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انصار و مہاجرین میں بھائی چارہ‘ یعنی مؤاخات قائم فرمائی تھی‘ اسی طرح انصار کو یہ ترغیب بھی دی کہ وہ اپنے بے وطن بھائیوں کو کوئی محصول وصول کیے بغیر زمینیں دیں اور ان سے کوئی محصول وصول نہ کریں۔
یہ نہی تنزیہی اب بھی بدستور موجود ہے‘ منسوخ نہیں ہوئی‘ یا پھر اس سے مراد وہی صورت ہوگی جس میں کسی ایک فریق کے لیے دھوکا اور فریب کا امکان ہو۔
«أَمَرَ بِالْمُؤَاجَرَۃِ» کا جملہ اسی مفہوم کی غمازی کر رہا ہے‘ نیز اجارہ پر دینے سے دوسرے کو آسانی اور سہولت ہوتی ہے‘ اس لیے ابتدا میں مزارعت سے منع فرما دیا تھا مگر جب زمین کی بہتات ہوگئی تو پھر یہ پابندی ختم ہوگئی۔
راویٔ حدیث: «حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ» ابویزید ان کی کنیت ہے۔
ثابت بن ضحاک بن خلیفہ نام ہے۔
انصاری ہیں۔
خزرج کے قبیلۂاشہل سے ہونے کی وجہ سے خزرجی اشہلی کہلائے۔
مشہور صحابی ہیں۔
ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جنھوں نے بیعت رضوان کی تھی۔
اس وقت یہ چھوٹے تھے۔
ایک قول کی رو سے ۴۵ہجری میں وفات پائی‘ مگر صحیح یہ ہے کہ ابن زبیر کے ہنگامے کے ایام میں ۶۴ ہجری میں فوت ہوئے۔